تحریر: جناب امیر افضل اعوان
تاریخ انسانی کا
غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے توبخوبی احساس ہوتا ہے کہ خاتم الانبیاء، احمد مجتبیٰ ﷺ ایسی عظیم المرتبت ہستی ہیں کہ جن کا ابد سے ازل
تک نہ کوئی ثانی تھا، نہ ہے اور نہ ہی ہوگا، آپ
ﷺ کے اوصاف حمیدہ پر نظر ڈالی جائے توعلم ہوتا ہے کہ جو اوصاف آپ ﷺ کی ذات بابرکت میں یکجا تھے وہ قدرت نے نسل آدم
میں کسی کو بھی اس جامع شکل میں ودعیت نہ کئے، تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالی جائے اور
ساڑھے چودہ سو سال پیچھے کا سفر کیا جائے تو عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے کہ جہاں ہمارے
پیارے رسول ﷺ اپنے صحابہ کرام] کے
ساتھ جلوہ نما ہیں، غور فرمائیں فتح مکہ کا منظر، کفار عالم پر غلبہ اسلام کے لمحات
اور رحمت اللعالمینﷺکا عفوودرگزر، بدلہ کی قدرت رکھتے ہوئے ناقابل معافی دشمنوںکو امان
دی جارہی ہے، تھوڑا پیچھے کا سفر اور وادی طائف کا نظارہ کریں، خون میں ڈوبے ہوئے وجود
اطہر کے ساتھ دعائیں دی جارہی ہیں، المختصر یہ کہ رسول کریم ﷺ کی حیات مبارکہ کا ہر
ہر گوشہ ایسی ہی قربان جانے والی صفات سے مزین نظرآتا ہے کہ غیر مسلم بھی آپ ﷺ کی
شان اقدس میں لب کشائی اور مدح سرائی پر مجبورہو جاتے ہیں۔
چشم فلک نے ایسا
نظارہ کبھی نہیں دیکھا کہ جو نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کی صورت سامنے آتا ہے، بادشاہ
ایسے کہ پورا ملک ان کی مٹھی میں ہو اور بے بس ایسے کہ خود کو بھی اپنے قبضہ میں نہ
جانتے ہوں بلکہ اللہ کے قبضہ میں سمجھتے ہوں، دولت مند ایسے کہ خزانے کے خزانے اونٹوں
پر لدے ہوئے ان کے دارالحکومت میں آرہے ہوں اور محتاج ایسے کہ مہینوں ان کے گھر چولہا
نہ جلتا ہو اور کئی وقت ان پر فاقے گزر جاتے ہوں، سپہ سالارایسے کہ مٹھی بھر نہتے آدمیوں
کو لے کر غرق آہن فوجوں سے کامیاب لڑائی لڑی ہو، صلح پسند ایسے کہ ہزاروں پر جوش جاں
نثاروں کی ہمرکابی کے باوجود صلح کے کاغذپر بے چوں و چراں دستخط کردیتے ہیں، شجاع ایسے
کہ ہزاروں کے مقابلہ میں اکیلے کھڑے ہوں اور نرم دل ایسے کہ انسانی خون کا ایک قطرہ
بھی اپنے ہاتھ سے نہ بہایا ہو، باتعلق ایسے کہ عرب کے ذرہ ذرہ کی ان کو فکر ، بیوی
بچوں کی ان کو فکر، غریب و مفلس کی ان کو فکر، خدا کی بھولی ہوئی دنیا کو سدھارنے کی
ان کو فکر، غرض سارے جہاں کی ان کو فکر ہو اور بے تعلق ایسے کہ اپنے خدا کے سوا کسی
اور کی یاد ان کو نہ ہو اور اس کے سوا ہر چیزان کے لئے بے معنی ہو۔
تاریخ گواہ ہے کہ
آپ ﷺنے اپنی ذات کے لئے برا کہنے والوں سے
بدلہ نہیں لیا اور اپنے ذاتی دشمنوں کے حق میں دعا خیر کی اور ان کا بھلا چاہا لیکن
اللہ کے دشمنوں کو آپ ﷺ نے کبھی معاف نہ کیا،
رسول کریم ﷺ غزوات میں فتح کے بعد بھی کسی
کو اعتدال سے گزرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے ، فتح خیبر کے موقع پر ایسی ہی صورتحال
سامنے آئی تو یہودیوں کا ایک گروہ شکایت لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، حدیث مبارکہ
میں اس کا بیان یوں ملتا ہے:
سیدنا خالد بن ولیدt بیان کرتے ہیں کہ میں خیبر کے موقع پر حضور اکرم ﷺ کے
ساتھ جہاد میں شریک تھا، آپﷺکے پاس خیبر کے یہود آئے اور شکایت کی کہ لوگوں نے ان
کے جانوروں کے باڑے جلدی میں لوٹ لیے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’خبردار! ذمی
کافروں کے اموال ناحق لینا جائز نہیں۔‘‘ (سنن ابوداؤد، جلد سوم، حدیث
414)
توجہ فرمائیے کہ
رحمت اللعالمین ﷺ کس طرح اپنے دشمنوں کو بھی معاف کرتے رہے اور ان کو ہر طرح سے تحفظ
فراہم کیا گیا، فتح مکہ کے موقع پر نبی پاک ﷺ کے سامنے وہ لوگ تھے جن کے دامن ماضی
پر عداوت اسلام کے سینکڑوں دھبے تھے، رسول اللہﷺ کا ایک ہی اشارہ ان کی گردن زنی کیلئے کافی تھا لیکن رحمت
تمام کے سیل کرم کی ایک موج ان کی سیاہ کاریوں کو بہا کر لے گئی، فرمایا آج کے دن
تم پر کوئی ملامت نہیں، جاؤ تم آزاد ہو، نبی کریمﷺ کے اس حسن سلوک کا یہ نتیجہ نکلا
کہ آپﷺ کی جان کے دشمن آپﷺ پر جان قربان کرنے والے بن گئے ۔
حسن سلوک کی ایک
مثال ثمامہ بن اثالt کے
قبول اسلام کے واقعہ سے بھی ثابت ہے، ثمامہ اسلام کا بدترین دشمن تھا جب اس کو آپﷺ
کے سامنے گرفتار کر کے پیش کیا گیا توآپﷺ نے اسے بغیر سزا کے معاف کردیا جس پر وہ
مشرف بہ اسلام ہوگیا، اسی طرح اللہ کے رسولﷺنے عکرمہ وصفوان بن امیہ اور ابو سفیان
کے ساتھ حسن اخلاق کا برتاؤ کیا اسی طرح کی اور کئی رواداری کی مثالیں ہیں جو اس بات
کی شاہد ہیں کہ آپﷺ کے حسن سلوک سے کئی مشرکین عرب دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے، حیات
مبارکہ کا مطالعہ کریں تو عین اس وقت جب ان پر ایک تیغ زن سپاہی کا گمان ہوتا ہے تو
وہ ایک شب زندہ دار زاہد کی صورت میں جلوہ نما ہوتے ہیں، عین اس وقت جب ہم ان کو شاہ
عرب کہہ کر پکارنا چاہتے ہیں تو وہ کھجور کی چھال کا تکیہ لگائے چٹائی پر کسی درویش
کی طرح بیٹھے نظر آتے ہیں، عین اس وقت جب اطراف عرب سے آآ کر اس کے صحن مسجد میں
مال و اسباب کا انبار لگا ہوتا ہے تو ان کے گھر فاقہ کی تیاری ہورہی ہوتی ہے، عین اس
عہد میں جب لڑائیوں کے قیدی مسلمانوں کے گھروں میں لونڈی، غلام بن کر بٹ رہے ہوتے ہیں،
سیدہ فاطمہr بنت رسولﷺ اپنے ہاتھوں کے چھالے اور اپنے کندھوں
کے نشان دکھا کر غلام کی خواہش کرتی ہیں توآپﷺ اپنی اس عزیز از جان بیٹی کو
نوازنے کی بجائے خالی ہاتھ واپس موڑ دیتے ہیں اور اس کی جگہ سونے سے پہلے 34 بار اللہ اکبر، 33 بار سبحان اللہ
اور 33 بار الحمد للہ پڑھنے
کی تلقین کرتے ہیں، عین اس وقت جب آدھا عرب آپﷺ کے زیر نگیں آچکا ہوتا ہے تو سیدنا
عمرt دربار
نبوت میں حاضر ہوکر کاشانہ بنوت کا جائزہ لیتے ہیں توآپﷺ ایک کھردری چٹائی پر آرام
فررہے ہوتے ہیں کہ جس کی وجہ سے جسم مبارک پر نشان پڑ گئے ہیں، ایک طرف مٹھی بھر جو
رکھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف پانی کا مشکیزہ لٹک رہا ہے، سیدنا عمرt یہ
حالت دیکھ کر رو پڑتے ہیں، سبب دریافت ہوتا ہے تو سیدنا عمرt فرماتے
ہیں کہ اللہ کے رسول! اس بڑھ کر اور رونے کا مقام کیا ہوگا کہ قیصر وکسریٰ باغ و بہار
کے مزے لوٹ رہے ہیں اور آپﷺ اس حالت میں ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے کہ عمر! ’’کیا تم اس بات
پر راضی نہیں کہ قیصر وکسریٰ دنیا کے مزے لوٹیں اور ہم آخرت کی سعادت۔‘‘
سید سلیمان ندوی
کے خطابات مدارس میں ایک ہندو کی اپنے مسلمان استاد سے گفتگو کا نقشہ انہی الفاظ میں
کھینچا گیا ہے۔
ہندوستان کے ماہر
تعلیم بی ایس کشالپہ کہتے ہیں کہ
’’مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ بلاشبہ محمدﷺ ایک سچے
پیغمبر تھے، اس سچے محمدﷺ کے بارے میں اس سے پہلے میرے دل میں جس قدر بدگمانیاں تھیں،
میں روح محمدﷺ سے اس کی معافی چاہتا ہوں اور بلامبالغہ کہتا ہوں کہ آج دنیا میں کسی
شخص میں یہ طاقت نہیں کہ محمدﷺ کے کریکٹر پر ایک دھبہ بھی لگائے۔‘‘
نامور مستشرق جان
ڈیوڈ اپنی کتاب ’’محمد (ﷺ) اور قرآن سے معذرت‘‘ کے دیباچہ میں یوں رقم طراز ہے:
’’اس کتاب کے لکھنے کا مخلصانہ مقصد یہ ہے کہ محمد ﷺ کی سوانح
حیات کو جھوٹی تہمتوں اور ناروا الزامات سے پاک کیا جائے اور آپ ﷺ نے مخلوق عالم کی
فلاح وبہبود کے لئے جو کچھ کیا ہے اسے اچھی طرح آشکار کیا جائے۔‘‘
ہندوستانی چرچ،
بمبئی کا پادری اسلام کے قانو ن صلح و جنگ بارے لکھتا ہے کہ ’’جنگ عام طور پر بری سمجھی
جاتی ہے مگر اسلام نے جنگ کے لئے اعلیٰ اصول پیش کیے ہیں۔‘‘
انقلاب فرانس کے
بانی روسو کا کہنا ہے کہ ’’حضرت محمدﷺ ایک منصف دماغ رکھنے والے انسان اور بلند مرتبہ
سیاسی مدبر تھے، انہوں نے جو سیاسی نظام قائم کیا، وہ نہایت شاندار تھا۔
دیوان چند شرما
کا کہنا ہے کہ ’’محمدﷺ محبت واخوت، ہمدردی و رحمدلی، لطف وکرم، شفقت و مروت کا پیکر
اور روح تھے، ان کی روحانی قوت کی تاثیر ان کے صحابہؓ کے لئے ناقابل فراموش تھی۔‘‘
رسالہ ’’ست اپدیش‘‘
کے ایڈیٹر اپنے خیالات کااظہار اس طرح کرتا ہے کہ
’’عام خیال یہ ہے کہ اسلام تلوار سے پھیلا مگر ہم اس رائے سے
موافقت کا اظہار نہیں کرسکتے کیوں کہ زبردستی کوئی شے ظالم کو دی جاتی ہے، وہ ظالم
سے واپس بھی لے لی جاتی ہے اگر اسلام کی اشاعت جبر کے ساتھ ہوتی تو آج اسلام کا نام
و نشان باقی نہ رہتا لیکن ایسا نہیں ہوا، ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام دن بدن ترقی کررہا
ہے۔‘‘
واشنگٹن کے مسٹر
ارونگ کا کہنا ہے کہ ’’اچھے دنوں میں بھی محمدﷺ وہی انداز زندگی رکھا جو غریبی کے دنوں
میں تھے، انہیں شاہی شان و شوکت پسند نہ تھی۔‘‘
مسٹر نکلسن ڈی کوجے
کہتا ہے کہ ’’حضرت محمدﷺ کی سنجیدگی، عظمت، دانائی اور میانہ روی ہی وہ خصوصیات ہیں
جو عرب کے تند خو لوگوں میں بہت کم پائی جاتی ہیں۔‘‘
روسی مصنف کونٹ
ٹالسٹائی کہتا ہے کہ
’’آپﷺ امت کو نور حق کی طرف لے گئے اور اسے اس قابل بنادیا
کہ وہ امن و سلامتی کی دل دادہ ہوجائے ، زہد
و پاکیزگی کی زندگی کو اپنائے، آپﷺ نے آکر انسانی خو نریزیاں بند کیں اور دنیا میں
حقیقی ترقی اور تمدن کی راہیں کھول دیں، ایسے محیر العقول کارنامے صرف ایسی ہی ہستی
انجام دے سکتی ہے کہ جس کے ساتھ کوئی پوشیدہ طاقت کام کررہی ہو اور بلاشبہ ایسی ہی
ہستی عظمت و احترام کی مستحق ہے۔‘‘
ریمنڈ لیراج کہتا
ہے کہ ’’پیغمبر عربیﷺ اس معاشرتی اور بین الاقوامی انقلاب کے بانی جس کا سراغ اس سے
قبل تاریخ میں نہیں ملتا۔‘‘
ڈاکٹر جے کا رام
کا کہنا ہے کہ ’’حضرت محمدﷺ نے اخلاق عالیہ
کہ تلقین ہی نہیں کی بلکہ ان اصولوں پر عمل بھی کیا، ان کی زندگی ایثار وقربانی کی
زندگی ہے۔‘‘
لا مارٹن کا کہنا
ہے کہ ’’محمدﷺ ایک فلاسفر، خوش بیاں خطیب، قانون دان، شجاع مجاہد، نظریات کا فاتح،
مذہبی اعتقادات کو منطق اور عقل کی بنیادوں پر کھڑا کرنے والے اورروحانی سلطنت کے بانی
تھے۔‘‘
بو سورتھ سمتھ کا
کہنا ہے کہ ’’اگر کسی ایک فرد کو یہ کہنے کا حق دیا جائے کہ کس نے صحیح طریقے سے حکومت
کی ہے توصرف اور صرف ایک نام سامنے آتا ہے اور وہ ہے محمدﷺ کا، انہوں نے عرب کا رخ
بدل دیا، ایک انقلاب آگیا، انقلاب بھی کیسا؟ ایسا انقلاب کہ آج تک کسی سرزمین پر
نہ آیا ، مکمل ترین، تیز ترین اور سراسر غیر معمولی انقلاب۔‘‘
کچھ عرصہ قبل نسل
انسانی کی تاریخ سامنے رکھتے ہوئے ان کی درجہ بندی کی گئی تو ترقی یافتہ اقوام اور
متعصب ذہن نہ چاہتے ہو ئے بھی ہمارے پیارے
رسولﷺ کو نسل انسانی میں سب سے اول مقام پر سرفراز کرنے پر مجبور ہوگئے، درجہ بندی
کرنے والے مائیکل ایچ ہارٹ کچھ یوں رقم طراز ہیں کہ
’’شاید کچھ لوگ تعجب کریں کہ میں نے تاریخ انسانی کے 100 مؤثر ترین انتہائی ذہین وفطین اور عظیم ترین شخصیات میں محمدﷺ کو
سرفہرست کیوں رکھا ہے اور شاید قارئین مجھ سے اس کی وجہ بھی پوچھیں، مجھے تاریخ میں
صرف وہی ایک ایسے انسان ملے جو دینی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں غیر معمولی طور پر
کامیاب رہے۔‘‘
غور فرمائیے کہ
دنیا کے مخالفین اور نقاد بھی رسول کریمﷺ کی حیات مبارکہ کا جائزہ لینے کے باوجود ان
کی ذات مبارکہ میں کوئی خامی تلاش کرنے سے قاصر رہے بلکہ ان کی تعریف و توصیف پر مجبور
ہوگئے، بلاشبہ حب رسولﷺ ہی کسی مومن کا اثاثہ ہے کیوں کہ یہ بڑی وضاحت کے ساتھ بیا
ن کیا جاتا ہے کہ کسی مسلمان کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا کہ جب تک رسول کریمﷺ
کی محبت ہر چیز اور رشتہ سے بلند مقام پر سرفراز نہ ہو۔‘‘
مندرجہ بالا الفاظ
اور اظہار بیاں غیرمسلموں کا ہے جو رسول کریمﷺ کی ذات بابرکت کے اوصاف کی مدح سرائی
پر مجبور ہوگئے ، جبکہ خالق کائنات خو دآپﷺ کی شان بارے قرآن کریم میں ارشاد فرما
ہے، جس کے بعد کسی بھی سند کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کہ ’’یقینا تمہارے لئے رسول
اللہﷺ ( کی ذات )میں عمدہ نمونہ ( موجود ) ہے۔‘‘ ( سورۃ الاحزاب )
رسول اللہﷺ کا ارشاد
پاک ہے کہ ’’اللہ نے اسماعیلؑ کی اولاد سے کنانہ کو کنانہ میں سے قریش کو اور قریش
میں سے بنی ہاشم کو پسند فرمایا اور بنی ہاشم میں سے مجھ کو چن لیا۔‘‘ ( مشکوٰۃ)
اللہ پاک خود نبی
کریمﷺ کی شان رسالت بارے قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ
’’وہی ہے جس نے
اپنے رسولﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کرے، اور اللہ
تعالیٰ کافی ہے گواہی دینے والا۔‘‘ (الفتح، آیت: 28)
ایک اور مقام پر
فرمایا گیا کہ
’’(اے محمد!) ہم نے تم کو سچائی کے ساتھ خوشخبری سنانے والا
اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اہل دوزخ کے بارے میں تم سے کچھ پرسش نہیں ہوگی۔‘‘
(البقرہ، آیت: 119)
یہاں آپ ﷺ کی نبوت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ
آپ ﷺ کا کام صرف اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچا
دینا ہے، اب اگر لوگ ایمان نہیں لاتے اور دوزخ کے مستحق ٹھہرتے ہیں تو اس سلسلہ میں
آپ ﷺ پر کچھ الزام نہیں۔
بلاشبہ آپﷺ رحمت
اللعالمین ہیں اور اس کی گواہی خود خالق کائنات دے رہا ہے کہ ’’اور ہم نے آپﷺکو تمام
جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ (الانبیاء، آیت107)
اسی طرح ایک اور
مقام پر اللہ پاک نے فرمایا کہ ’’بیشک (اے نبی!) ہم نے آپﷺکو ایک کھلم کھلا فتح دی
ہے۔‘‘ (محمد، آیت1)
آپﷺ کی شان بیان
کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ’’یقیناً ہم نے تجھے (حوض) کوثر (اور بہت کچھ) دیا ہے۔‘‘ (الکوثر،
آیت1)
قرآن کریم میں
رسول کریمﷺ کی عظمت بارے متعدد مقام پر ارشادات الٰہی موجود ہیں ایک اور جگہ فرمایا
گیا کہ ’’ہم نے تیرا ذکر بلند کر دیا۔‘‘ (الشرح، آیت 4)
یعنی پیغمبروں اور
فرشتوں میں آپﷺ کا نام بلند ہے، دنیا میں تمام سمجھدار انسان نہایت عزت و وقعت سے
آپﷺ کا ذکر کرتے ہیں، غور فرمائیے کہ اذان، اقامت، خطبہ، کلمہ طیبہ اور التحیات وغیرہ
میں اللہ کے نام کے بعد آپ ﷺ کا نام لیا جاتا
ہے اور خدا نے جہاں بندوں کو اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہیں ساتھ، ساتھ آپﷺ کی فرمانبرداری
کی تاکید کی ہے، لطف کی بات یہ ہے کہ یہ پیشین گوئی اللہ تعالیٰ نے اس وقت کی تھی جب
مکہ کے لوگوں کے علاوہ آپﷺ کو کوئی جانتا تک نہ تھا اور وہ بھی آپﷺ کے دشمن اور آپﷺ
کی ہستی کو دنیا سے ختم کر دینے پر تلے ہوئے تھے، قرآن کی یہ پیشینگوئی خود قرآن
کی صداقت پر کھلا ہوا ثبوت ہے، اس وقت کون یہ اندازہ کرسکتا تھا کہ آپﷺکا ذکر خیر
اس شان کے ساتھ اور اتنے وسیع پیمانے پر ہوگا کہ حاسدین بھی مفلوج ہو کر رہ جائیں گے۔
No comments:
Post a Comment