تازہ ترین

Post Top Ad

Saturday, December 28, 2019

ننھے پھولوں کی جلی کٹی لاشیں .. لمحہ لمحہ مرتی انسانیت


تحریر: پروفیسر محمد عاصم حفیظ
ننھے بچوں کے یہ جلے کٹے لاشے
روندی ہوئی کچلی مسلی کلیوں کے تماشے
کٹے پھٹے بکھرے اعضاء، لہو لہو یہ نوجواں
جا بجا تڑپتے سسکتے ہوئے بڑھاپے

یہ دردناک مناظر
یہ مسمار گھر ، تباہ شدہ خیمے ، یہ چیخ و پکار اور بلند ہوتی آہیں و سسکیاں
انبیاء کرام کی سرزمین شام ہو یا جنت نظیر کشمیر
گولیوں کی تھرتھراہٹ ہے ۔بارود کی بارش ہوتی ہے ۔گولہ باری جاری ہے ۔گھر مسمار ہو چکے ۔ چھت اور رہائشیں چھین لیں ۔  ننھی جانوں پر بمباری ہوتی ہے اور جنہیں زندگی کی بہاریں دیکھنا ہیں انہیں شہید کیا جا رہا ہے ۔  ہر بمباری کے بعد جو سب سے زیادہ تلخ مناظر ہوتے ہیں وہ  زخمی ہو جانے والے ننھے بچوں کی آسمان تک پہنچتی چیخ و پکار ہوتی ہے ۔ ظالم بمبار بچوں کو بطور خاص نشانہ بناتے ہیں ۔ ایک طرف بمباری سے تو دوسری طرف پیلٹ گنوں سے جلتے تڑپتے ہوئے ننھے جسم ہوتے ہیں ۔ ایک چیخ و پکار ہوتی ہے ۔ ہر طرف انسانیت کا المیہ ہوتا ہے ۔ دکھ ہے اور تکالیف کے پہاڑ، کہیں کوئی باپ کی بانہوں میں زندگی کی بازی ہار رہا ہے تو کوئی زخمی حالت میں بیٹھا مدد کا منتظر ہے ۔
کہاں ہیں دنیا میں انسانیت و امن کے نام نہاد علمبردار ؟  کہاں ہے دنیا میں بچوں کے حقوق کا دعویدار ادارہ یونیسیف ؟ کیا یہ انسانوں کے بچے نہیں ہیں ؟ کیا ان معصوم جانوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں ؟  کیاانہیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے کوئی ان کی پکار کیوں نہیں سنتا ؟
ان کے حقوق کے لئے ، ان کی تعلیم اور جینے کے حق کے لئے کیوں کوئی ملالہ سامنے نہیں لائی جاتی ، ان کی زبانوں پر کیوں چھالے پڑ جاتے ہیں شام کے بچوں کی بات کرتے کرتے ؟  سارے انسانی حقوق بھول جاتے ہیں ۔ تعلیم صحت اور جینے کا حق یاد نہیں رہتا ہے ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے صرف مسلمان بچوں کے بارے میں ؟
ترک صدر رجب طیب اردگان نے ٹھیک ہی کہا تھا  کہ اگر شامی بچوں کی رگوں میں سرخ خون کی بجائے پیٹرول ہوتا تو پھر سارے امن کے ٹھیکیدار ضرور بھاگے بھاگے چلے آتے ۔ سب ان بچوں کو بچانے کی کوشش میں لگ جاتے۔ لیکن ان کا قصور صرف یہی ہے کہ ان کی رگوں میں مسلمان خون ہے جس کی اس دنیا میں کوئی قدر نہیں ۔ اسے بے دریغ بہایا جا رہا ہے ۔ کوئی اس کا والی وارث نہیں ہے ۔
تحقیقاتی اداروں کے مطابق شام کی خانہ جنگی کے باعث ابتک 80 لاکھ سے زائد شہری  ملک کے اندر ہی بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ 52 لاکھ سے زائد مہاجرین ترکی اور دیگر ممالک میں موجود ہیں ۔ 2011 سے شروع ہونیوالی اس خانہ جنگی کے باعث ابتک 5 لاکھ کے قریب شامی شہری اور فوجی اہلکار جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال کشمیر میں بھی ہو رہی ہے نسل در نسل قتل وغارت کا بازار گرم ہے۔
گھر مسمار ہو چکے ۔ گاڑیوں تک کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ہسپتال ، سکول ، مارکیٹیں محفوظ نہیں ہیں ۔ جہاں نہتے لوگ دیکھے اور معصوم بچے نظر آئے تو بمباری اور فائرنگ سے نشانہ بنا دیا جاتا ہے ۔ ان ننھی جانوں کی آہیں اور سسکیاں عرش الہی تک ضرور پہنچتی ہوں گی اور بے حسی کی نیند سوئے حکمرانوں کا گریبان آخرت میں ضرور پکڑیں گیں۔ 
شام وکشمیر میں انسانیت ڈوب رہی ہے ۔ ایک انسانی المیہ ہو چکا  ۔ ہر کوئی بے حسی کی گہری نیند سو رہا ہے ۔ 
یا اللہ ان کی مدد فرما ۔ آمین!



  نوٹ:
            مقالہ نگار کے ساتھ’’انتخاب اردو‘‘ ٹیم کا اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ہے۔
            سائٹ پر کوئی اشتہار دیا گیا تو نیک نیتی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، مشتہر کے ساتھ لین دین وغیرہ معاملات کے ذمہ دار نہیں۔
            آپ بھی اپنی تحریروں کو ’’انتخاب اردو‘‘ کی زینت بنانا چاہیں تو ای میل کریں:
             intikhaburdu@gmail.com



No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot