تازہ ترین

Post Top Ad

Saturday, December 28, 2019

اہل دیہات کا غم


تحریر: جناب عمر خاں جوزوی
دل والوں کادرداہل دل ہی جانیں۔ شہرکے بڑے بڑے سکولوں، کالج اوریونیورسٹیوں میں پڑھنے اورتاج محلوں میں پلنے والے سیاستدانوں اورحکمرانوں کودیہات میں رہنے والے غریبوں کے دکھ اور درد کا کیا پتہ؟ سونے کاچمچہ منہ میں لیکرپیداہونے والے اہل دیہات کادرداورغم کیا جانیں؟ برگر، شوارما اور پیزے پرمنہ کاذائقہ تبدیل کرنے والوں کوکیاعلم کہ گائوں اوردیہات کے لوگ کس اذیت اور مشکل سے زندگی گزارتے ہیں؟ جن کوشہرمیں آٹے، چینی اورگھی کے بھائوکانہیں معلوم وہ غربت وپسماندگی میں، غریبوں کے بہائو، سے کیسے آشناء ہوں گے؟
ہمارے اہل دیہات کی یہ بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ انہیں دورجدیدمیں جوبھی سیاسی نوکر، خادم اورنمائندے ملے وہ برگر، شوارمے اورپیزے والے ملے۔ اہل دیہات کی بھاگ دوڑجب تک ان پڑھ سیاسیوںکے ہاتھ میں تھی تب تک وہ بھی ترقی سے مستفیدہوتے رہے لیکن جب سے شہروں میں پلنے اورنامی گرامی کالجوں سے پڑھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ماڈرن قسم کے سیاستدان بطورممبران صوبائی وقومی اسمبلی اُن پرمسلط ہوئے ہیں اس کے بعدسے ان کی زندگیاں بھی عذاب سی بن گئی ہیں۔ اہل دیہات سے ووٹ بٹورنے والے ان ممبران کوشہروں میں گھومنے پھرنے اوررہنے کی عادت تو پرانی بلکہ بہت پرانی ہے۔ اب اہل دیہات درد میں رہے یاکسی تکلیف اورپریشانی میں۔ اس سے ان ممبران کا کیا تعلق؟ یا کیا لینا دینا؟
پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے دیگر دیہات اور اہل دیہات کا تو ہمیں علم نہیں لیکن سناہے کہ ہم نے بٹگرام کے جن دیہات کے صاف وشفاف چشموں سے پانی پیا۔ جن دیہات میں ہمارابچپن گذرا۔ آج ان دیہات اوراہل دیہات کا ایسے ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ اورماڈرن قسم کے ممبران سے واسطہ پڑا ہے۔ جنوبی پنجاب کے کچھ دیہی علاقوں اورسندھ کے تھرپارکر کی پسماندگی، غربت اورعوام کی بدحالی کے قصے اورکہانیاں توہم نے بہت سنی تھیں لیکن اپنے آبائی ضلع بٹگرام میں پسماندگی، غربت اور بدحالی کے صرف قصے اور کہانیاں نہیں بلکہ ایسے ہولناک اوردردناک مناظر حقیقت میں ہم نے اپنی ان گنہگار آنکھوں سے دیکھ بھی لئے۔
بٹگرام کا شمار خیبر پختونخوا کے پسماندہ ترین اضلاع میں سے ہوتا ہے۔ سیاسی، سماجی اورمذہبی لحاظ سے تو بٹگرام کا شمار ہمیشہ اہم رہا ہے مگر جدید ترقیاتی کتاب میں اس ضلع کاآج تک کوئی نام بھی نہیں ملا۔ ان پڑھ اورجاہل دیہی سیاستدانوں کی برکت سے یہاں پہلے ترقی کی جو گاڑی چل پڑی تھی اب ماڈرن اورشہری سیاستدانوں کے ہاتھوں اس کے چاروں ٹائر پنکچر ہو چکے ہیں۔ پہلے ان دیہات اورعلاقوں میں پانی کے لئے جوپائپ لگائے گئے تھے ہمارے موجودہ سیاستدانوں اورممبران کے کمالات وانوارات کی وجہ سے وہ پائپ اب نہ صرف خشک اورزنگ آلود بلکہ جگہ جگہ سے ٹوٹ بھی چکے ہیں۔ کل تک بجلی کی جو تاریں عوام کو روشنی دینے کے لئے استعمال ہوتی تھیں آج ان تاروں پرگیلے کپڑے سکائے جارہے ہیں۔ چوبیس گھنٹوں میں 22 اور 23 گھنٹے لوڈشیڈنگ کامعمول اور کہیں ہو یا نہ لیکن یہ کارنامہ بھی اس بدقسمت ضلع میں بڑی ڈھٹائی اوربے شرمی کے ساتھ سر انجام دیا جا رہا ہے۔ پانی، بجلی، گیس، صحت وتعلیم سمیت دیگر بنیادی سہولیات اور ضروریات کا اس ضلع میں دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں۔ یہاں کی رابطہ سڑکوں پرسفرکرنے کی وجہ سے مغلیہ دورکی کھنڈرات اور آثار قدیمہ کا دیدار دنیا جہان کے بدقسمتوں کو بھی چندلمحوں میں نصیب ہوتا ہے۔
یہاں بجلی کی خشک تاریں، کھنڈر نما سڑکیں، پانی کی زنگ آلود پائپس، سہولیات وضروریات سے خالی محکمہ صحت وتعلیم کے بھوت بنگلے دیکھ کریہ گمان ہونے لگتاہے کہ شایدیہ زندہ انسانوں کے رہنے کی کوئی جگہ نہیں بلکہ انتہاء قسم کے خطرناک جانوروں کاکوئی مسکن گاہ ہے جس میں وحشی درندے اور پرندے کہیں اڑ کر یا چھلانگیں مارکر وقت گذارتے ہیں۔ رابطہ سڑک، پانی، بجلی، گیس، ہسپتال اورسکول یہ انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں جہاں یہ نہ ہوں وہاں انسان کس طرح زندگی گذارسکیں گے؟
ہمارے اکثر دیہات، گائوں اور دیگر پہاڑی علاقے آج ان سہولیات اوربنیادی ضروریات سے یکسرمحروم ہیں۔ ملک وقوم کے لئے ہر دور اور ہر محاذ پر قربانیاں دینے والے ہمارے دیہاتی لوگ آج کس طرح زندگی گذار رہے ہیں؟ ہم میں سے کسی کواس کی کوئی پرواہ نہیں۔ بے چارے سادہ دیہاتیوں کے مضبوط کندھوں پرچڑھ کر اقتدار اور کرسی تک پہنچنے والے ہمارے ایم این ایز اور ایم پی ایز انہی غریب دیہاتیوں کی وجہ سے بھاری تنخواہیں اورمراعات لیکر موج مستیاں اورعیاشیاں توکرتے ہیں مگران کو پھر یہ غریب دیہاتی کبھی یاد نہیں رہتے۔ اسلام آباداورپشاورکی رنگینیوں میں گم این اے 22 اور پی کے 59 بٹگرام کے منتخب ممبران بھی ہوا میں اڑکراسمبلی نہیں پہنچے۔ انہیں بھی بٹگرام کے ہزاروں اورلاکھوں دیہاتیوں نے اپنے کندھے دے کراس مقام تک پہنچایا۔ عوامی مسائل کوحل کرنا منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جولوگ ووٹ لیکراسمبلی پہنچتے ہیں ان پر پھرعوام کی خدمت فرض ہوجاتی ہے۔ برگر، شوارمے اورپیزے کھانے سے کوئی عوامی مسائل کے حل اوراپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہو جاتا۔
غریبوں کی ووٹ کی برکت سے فائیو سٹار میں چکن، مٹن اور بریانی اڑانے والوں کو مکئی کی روٹی، سہاگ اورلسی پینے والے دیہاتیوں کوبھی ایک لمحے کے لئے ضرور یاد کرنا چاہیے۔ ویسے جولوگ اپنے حلقے کے عوامی مفادات اورحقوق کاتحفظ نہ کرسکیں انہیں پھرسیاست کرنا ہرگز زیب نہیں دیتا۔ سیاست اہل دل اوراہل زباں کاکام ہے۔ جو لوگ سینے میں دل اور منہ میں زبان نہیں رکھتے انہیں چوڑیاں پہن کر پھر کوئی اورکام اوردھندہ کرنا چاہیے۔
بٹگرام اوراہل بٹگرام کے مسائل دیکھ کریہاں سے منتخب ہونے والے ممبران کے انتخاب پر رونے، چیخنے، چلانے اور ماتم کرنے کادل کرتا ہے۔ جہاں آمد ورفت کے لئے کوئی وسیلہ ہو اور نہ ہی پانی، گیس، صحت وتعلیم کاکوئی سلسلہ۔ جہاں 23 گھنٹے بجلی کی تاریخی لوڈشیڈنگ ہو۔ وہاں کے منتخب ممبران یا عجوبے واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ ہمارے نا اہل اور مفاد پرست سیاستدانوں کی وجہ سے اس ملک میں ’’بٹگراموں‘‘ کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ پسماندگی، غربت اور عوامی بدحالی کی صورت میں ہمیں پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بھی جگہ جگہ بہت سے بٹگرام دکھائی دیں گے۔ جہاں مفادپرست اور نکمے سیاستدانوں کے ڈیرے ہوں۔ وہاں پھر بٹگرام اور تھرپارکر جیسے علاقے بننے میں دیر نہیں لگتی۔
دیہات کاپانی پینے کی وجہ سے اہل دیہات کاغم اعلیٰ ایوانوں تک پہنچانا ہم پر قرض اور ہمارا ایک فرض تھا جو ہم نے اس کالم کے ذریعے ادا کرنے کی ایک ناکام سی کوشش کردی ہے۔ اللہ کرے ہمارے یہ بے ربط اورٹوٹے پھوٹے الفاظ اقتدار کی رنگینیوں اور شہرکی مستیوں میں گم، یو ٹرنوں کی بھول بلیوں سے بچتے بچاتے پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے اہل دیہات کے منتخب نمائندوں اور سیاسی نوکروں کے کانوں تک کسی نہ کسی طرح پہنچے، نہ صرف پہنچے بلکہ انہیں سن کر اپنے کارناموں پرکوئی فخرمحسوس ہو۔
جس طرح ان غریب دیہاتیوں سے ووٹ لینے کے لئے کوئی آسمانی یاکوئی تیسری مخلوق نہیں آئی اسی طرح اب ان کے مسائل حل کرنے کے لئے بھی کوئی اورمخلوق نہیں آئے گی۔ جن لوگوں نے ان بے چاروں سے ووٹ لئے اب ان کے مسائل حل کرنا بھی انہی لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ اس لئے بٹگرام سمیت ملک بھرکے وہ تمام ممبران اسمبلی، سیاستدان اورحکمران جو اہل دیہات کے کندھے پر سوار ہو کر اقتدار اور اسمبلی میں پہنچے وہ اب ان غریب دیہاتیوں کے آنسو پونچھ کر ان کی ترقی اورخوشحالی کے لئے آگے آئیں۔ ویسے یہ دیہاتی لوگ ان دودھ پیتے سیاستدانوں سے زیادہ سیانے اور سر پھرے ہوتے ہیں یہ کسی کوتخت پر بٹھانے کا کام جانتے ہوں یا نہ لیکن کسی کا سیاسی تختہ کرنے کا کام تو کوئی ان سے سیکھے۔ جس طرح یہ قسمت والوں کوکندھوں پراٹھاتے ہیں پھر اسی زور سے یہ ان کو زمین پر مارنے یا پٹخنے میں بھی کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ اس لئے دیہات اوراہل دیہات سے یہ سیاسی دشمنیاں اچھی نہیں ۔




  نوٹ:
            مقالہ نگار کے ساتھ’’انتخاب اردو‘‘ ٹیم کا اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ہے۔
            سائٹ پر کوئی اشتہار دیا گیا تو نیک نیتی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، مشتہر کے ساتھ لین دین وغیرہ معاملات کے ذمہ دار نہیں۔
            آپ بھی اپنی تحریروں کو ’’انتخاب اردو‘‘ کی زینت بنانا چاہیں تو ای میل کریں:
             intikhaburdu@gmail.com



No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot