تازہ ترین

Post Top Ad

Sunday, May 31, 2020

قتل وغارت کا ... کرونا ڈراپ سین

Corona, COVD-19

تحریر: جناب ابوسیف اللہ

پچھلے دنوں بندہ نے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز حضرات کی کرونا کے حوالے سے عامۃ الناس کی ’’مسیحائی‘‘ کے حوالے سے کچھ گذارشات کی تھیں۔  انہی گذارشات کا کچھ تسلسل یہ چند الفاظ بھی ہیں۔
اس وقت بندہ نے عرض کیا تھا کہ ڈاکٹرز جو بظاہر مسیحا کے روپ میں ہیں لیکن آج کل سرکاری ہسپتالوں میں تو سکہ بند ملک الموت کا روپ دھارے کھڑے ہیں۔ پرائیویٹ ہسپتال تو پہلے سے ہی مریض کی مسیحائی کم اپنے بنک بیلنس کی مسیحائی زیادہ کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:   مسیحا بنے قاتل
میری اس تحریر کے دو دن بعد ہی ایک تکلیف دہ واقعہ علم میں آیا جس میں ایک بھائی نے لاہور کینال ویو پر واقع ایک پرائیویٹ ہسپتال کی کارستانی سنائی کہ کس طرح انہوں نے بنا کسی ٹیسٹ کے ان کے بھائی کو کرونا مریض ثابت کیا اور کیسے ان کو زبردستی آئیسولیشن میں ڈال کر ان کو جانے کس طرح کی ادویات دیں کہ ان کا خون سخت گاڑھا ہو کر کالی رنگت اختیار کر گیا اور جب بھاگ دوڑ کر کے بمشکل ہسپتال والوں سے بھائی کی جان چھڑائی اور انہیں گھر لے کر آئے اور ایک لیب میں ٹیسٹ کروانے کے لیے خون نکالنے لگے۔ پہلے تو خون ہی نہ نکلا اور جب نکلا تو چند سخت سیاہ قطرے برآمد ہوئے۔
ابھی ٹیسٹ کے لیے مذکور لیبارٹری کو سمپلز دے کر گھر پہنچے ہی تھے کہ سخت گاڑھا خون ہو جانے کی وجہ سے ان کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہیں وفات پا گئے۔ ہسپتالوں میں علاج کے نام پر کرونا کی آڑ میں مردہ فروشی ہو رہی ہے۔
چند ایام قبل کراچی میں ایک ماہ کے اندر ہوئی اموات کے اعداد وشمار کو کراس ویریفائی کرنے کے لیے جیو نیوز نے ایک ٹیم بنائی جنہوں نے ہر مرنے والے کے گھر اور لواحقین سے مل کر تحقیقات کیں۔ تو نتائج انتہائی حیرت انگیز تھے۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کراچی میں 15 مارچ  سے 13 اپریل تک کے وقفے میں 759 اموات ہوئیں۔ اور جب جیو نیوز کی تحقیقاتی ٹیم نے گھر گھر جا کر لواحقین سے ملاقات کی اور تحقیق کی تو سامنے آیا کہ کوئی ہارٹ اٹیک سے فوت ہوا تو کوئی کسی اور مرض سے۔ لواحقین کے پاس باقاعدہ متوفیان کے تصدیق شدہ ڈیتھ سرٹیفیکیٹس بھی ہیں جبکہ کرونا وائرس سے متاثرہ صرف ایک بوڑھی خاتون سامنے آئیں وہ بھی مرنے کے بعد سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر صاحب نے تشخیص کیا کہ ان کو کرونا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حقائق کیا ہیں۔
آج ایک محترم بھائی کی مووی ملی ہے جن کے والد صاحب کو لاہور جنرل ہسپتال میں زبردستی رکھا گیا ہے۔ ان کو مرض کچھ اور ہے جس کے علاج کے لیے انہیں ہسپتال لایا گیا کہ اس کا علاج کریں۔ لیکن ہسپتال انتظامیہ وڈاکٹرز ان کے متعلقہ مرض کا علاج کرنے کی بجائے انہیں زبردستی آئیسولیشن میں ڈال کر انہیں کرونا مریض ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اس کے ساتھ انہیں ایسی ادویات دی جا رہی ہیں جن کا ان کے موجودہ مرض سے کوئی تعلق نہیں بلکہ شاید ان ادویات کا کرونا سے بھی کوئی تعلق نہیں۔
پھر ان بھائی صاحب نے اپنے والد صاحب ہی نہیں دائیں بائیں کچھ اور مریضوں کے حوالے سے بھی کچھ چشم کشا حقائق بیان کیے ہیں۔ امید ہے کرونا وائرس کے اس ڈراپ سین کو احباب خوب اچھی طرح سے سمجھ پائیں گے۔
ضمیر فروشی کے اس بحر بے کنار میں اب بھی ہم امید کرتے ہیں کہ احباب اقتدار میں کوئی تو ہو گا جس کے دیدوں میں شرم نام کا پانی موجود ہو گا اور ایسی انسانیت سوز بدمعاشی کے خلاف ہماری آواز شاید اس کے ضمیر کو بیدار کر پائے۔
کوئی تو ہو جو لوگوں کے سروں سے ان کے باپ کا سایہ یوں چھیننے نہ دے؟ کوئی ہو جو ماں جیسی رحمت کا خون یوں رائیگاں نہ جانے دے؟ کسی کا لخت جگر عالمی ادارہ صحت کی بھینٹ چڑھنے سے کوئی بچا سکے؟
میں ان عدالتوں سے بھی گذارش کروں گا جو رات 12 بجے اور چھٹی والے دن کسی بھی وقت اپنے مقصد کے حصول کے لیے دکان کھول لیتے ہیں۔ خدا را عوام کا ایسا کھلے بندوں قتل عام بند کیا جائے۔
عامۃ الناس سے بھی گذارش ہے کہ آواز اٹھائیں، گونگے بہرے بنے رہنے سے کہاں تک چلے گا۔ اس آواز کو لوگوں تک پہنچائیں آج کسی کا بیٹا، باپ، ماں شکار ہوئے ہیں، کل آپ کے کسی عزیز کی باری آ سکتی ہے۔



  نوٹ:
            مقالہ نگار کے ساتھ’’انتخاب اردو‘‘ ٹیم کا اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ہے۔
            سائٹ پر کوئی اشتہار دیا گیا تو نیک نیتی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، مشتہر کے ساتھ لین دین وغیرہ معاملات کے ذمہ دار نہیں۔
            آپ بھی اپنی تحریروں کو ’’انتخاب اردو‘‘ کی زینت بنانا چاہیں تو ای میل کریں:
             intikhaburdu@gmail.com



1 comment:

  1. It will be a very denger for hole world if the crona vires are not control Allah save them for all humen beings.

    ReplyDelete

Post Top Ad

Your Ad Spot