تازہ ترین

Post Top Ad

Tuesday, May 12, 2020

مسیحا بنے قاتل میرے


تحریر: جناب ابوسیف اللہ
کسی زمانہ میں میڈیکل سائنس نے جب ابھی کوئی خاص ترقی نہ کی تھی، ایلو پیتھی طریقہ علاج بتدریج متعارف ہو رہا تھا۔ اس وقت کے اطباء کی اکثریت ایسی تھی جو سینہ بہ سینہ ’’علوم‘‘ سیکھنے کے بعد طبیب حاذق بنے تھے۔ کسی کالج، یونیورسٹی، یا کسی بھی تعلیمی ادارے سے طبابت یا ڈاکٹری کی تعلیم وڈگری کے حامل نہ تھے۔ چند ایک خوش قسمت اطباء ہوں گے جو اپنا نام ضبط تحریر میں لا سکنے کی سکت رکھتے ہوں گے ورنہ اکثریت ان میں سے انگوٹھا چھاپ ہی ہوا کرتے تھے۔
ادوار بدلے، دہائیاں گذریں، اب ہر گلی کوچے میں طبیب حاذق نہیں ’’ڈاکٹر‘‘ ہوا کرتے تھے۔ کہنے کو یہ سب ڈاکٹر ہی کہلواتے تھے۔ مریض جو پہلے دیسی ادویات کے استعمال کے عادی تھے، آرام آگیا تو ٹھیک، نہ آیا تو اللہ کی مرضی جان کر راضی برضاء اللہ صبر واستقامت کا دامن تھام لیتے تھے۔ اب اس معجزاتی ایلوپیتھی طریق علاج کے جادوئی اثر دوا سے مرید ومریض ٹھہرے۔ ادھر دوائی اندر، اُدھر درد یا بخار باہر۔
پھر ایلوپتھی طریقہ علاج میں ترقی یہ ہوئی کہ اکثر ڈاکٹروں نے اپنے مریضوں کے علاج میں گولیاں دینے کے ساتھ ساتھ ایک عدد ’’ٹیکا‘‘ (انجیکشن) بھی لگانا شروع کر دیا جو کہ گولیوں سے بھی زود اثر تھا۔
لیکن اجی صاحب! اس ’’ٹیکے‘‘ نے جہاں فوری علاج فراہم کیا وہاں اپنے ’’چمتکار‘‘ بھی دکھانے شروع کر دیئے۔ کئی سارے احوال ایسے ہوتے کہ ڈاکٹر کو کسی بات کی سمجھ نہیں آئی، انہوں نے اینٹی بائیوٹک ادویات کے پُڑے باندھے اور ایک عدد ٹیکا جڑ دیا۔ ادھر ٹیکا لگا ادھر مریض اوپر۔ مطلب کہ کئی دفعہ مرض سے آرام کی بجائے مریض دنیا کی ہر مصیبت وپریشانی سے آرام پا جاتا۔
اس بارے میں جب احباب حل وعقد کی توجہ مبذول کروائی گئی کہ پہلے لوگ عطائی حکیموں کا شکار ہوا کرتے تھے۔ اب عطائی ڈاکٹروں کے نتائج نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔ شاید انہی سابق عطائیوں نے ترقی کرتے ہوئے حکیمانہ چولا اتار کر ڈاکٹرانہ چولا پہن لیا تھا۔
پھر انجمنیں بنیں، کمیشن بنے، یہ ہوا وہ ہوا۔ اور پھر انسانی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے لیے ایک ڈپلومہ کورس کا پرچہ تھمایا جانے لگا کہ جو لوگ اس پرچہ کا حامل ہو گا وہ انسانی زندگیوں پر ادویاتی تجربات کرنے کا حامل ہو گا۔
جی ہاں، میٹرک کرنے کے بعد لوگ نرسنگ کا کورس کر کے ایک سرٹیفیکیٹ ہاتھ میں تھام کر ڈاکٹر بننے لگے۔ اب اس کورس کے حامل ڈاکٹرز حضرات ہر گلی کوچے میں کلینک کھولے بیٹھے ہوتے ہیں۔ دروازے کے سامنے جس کرسی پر براجمان ہوتے ہیں اس کے آگے، پیچھے، یا دائیں بائیں کہیں ایک کاؤنٹر رکھا ہوتا ہے جس پر چند ایک مختلف قسم کی ہومیوپیتھی کی ادویات قرینے سے سجی ہوتی ہیں۔
جبکہ کلینک کے کسی کونے کھدرے میں ایک الگ سے کاؤنٹر یا تجربہ گاہ بنی ہوتی ہے جس کے پردہ میں جدید ایلوپیتھی ادویاتی تجربہ گاہ ہوتی ہے جو حقیقت میں ہر آنے والے مریض کے لیے ادویاتی نسخہ تیار کرنے کی لیبارٹری ہوتی ہے۔ اگر ایسے کلینک میں جانے والا وہاں غور کرے تو ہومیوپیتھک ادویات کا وہ کاؤنٹر جو سامنے رکھا ہوتا ہے شاید سالہا سال سے بار بار مٹی پڑنی کی وجہ سے اس میں موجود شیشوں کی رنگت کالی پڑ چکی ہوتی ہے۔
ان ڈاکٹروں میں سے کچھ ایسے بھی وجود میں آئے جنہوں نے کہیں ’’باہر‘‘ سے میڈیکل کی ’’جدید‘‘ تعلیم حاصل کی تھی، ملک وقوم کی ’’خدمت‘‘ کے بخار کی وجہ سے پاکستان میں آئے، تھوڑی بہتر جگہ کلینک کھولا، ایک دو عجیب وغریب شکل کی نظر آنے والی میڈیکل ایکویپمنٹ (مشینری) رکھی اور لگے لوگوں کے ٹیسٹ کرنے۔
ایک خاص علاقہ کے انہی عطائیوں سے رابطہ بڑھایا۔ ان سے کمیشن طے کیا یا ان کو کوئی اَور سہولت فراہم کر دی گئی۔ بدلے میں اب یہ ڈاکٹرز حضرات ہر ایسے مریض کو جس کے بارے میں انہوں نے سمجھا کہ اس کی جیب کو نچوڑا جا سکتا ہے۔ اجی آپ فلاں کلینک میں فلاں ڈاکٹر صاحب سے جا کر مل لیجیے۔ وہاں آپ کا علاج بہتر ہو سکے گا۔ وہ صاحب اس کیس کے ’’اسپیشلسٹ‘‘ ہیں۔
یوں یہ بزنس بھی چل پڑا۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز نے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر ملازمین سے کسی کو منتخب کر کے معاملات طے کیے اور اب یہ گرگ باراں دیدہ ملازم سرکاری ڈیوٹی کے دوران آئے ہوئے مریضوں کو اپنی ایکسرے نظروں سے جانچ پڑتال کرتے ہیں اور جس کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ مجبور ہے اور مریض کے لیے خرچ کرے گا کو تاڑ کر ڈاکٹر صاحب کے پرائیویٹ کلینک میں ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کروانے کا عظیم احسان مریض کے لواحقین پر دھرتے ہیں۔
یوں یہ ’’بزنس‘‘ روز افزوں ترقی کی منازل طے کرتا آگے بڑھتا جا رہا ہے۔
گائینی ہسپتالوں میں مریضوں کو پریشان کر کے نارمل ہونے والی ڈلیوری کے لیے آپریشن کی ضرورت کی اہمیت کیسے اجاگر کی جاتی ہے؟ یہ ہتھکنڈے بازار میں چلتے پھرتے کسی ٹھگ سے نہیں سیکھ سکیں گے۔ کسی ’’حاذق‘‘ ڈاکٹر کی شاگردی اختیار کرنا پڑے گی۔
ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہے؟ کبھی یوں لگتا ہے میڈیکل نے انسانی زندگی کے تحفظ کے لیے ترقی نہیں کی۔ بلکہ میڈیکل کرائمز نے انسانوں کے اعضاء کے ساتھ کھلواڑ کرنے میں بہت ترقی کر لی ہے۔ مریض کی چھوٹی سی بیماری کو پہاڑ بنا کر پیش کرنا، اور پھر آپریشن تھیٹر میں چپکے سے مریض کے آرگنز میں سے کسی کو غائب کر دینا۔ یہ ڈاکٹرز کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل بنتا جا رہا ہے۔ کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ ہیومن آرگنز کی ٹریفکنگ کے پیچھے ہمارے انہی ماہر ترین سرجن ڈاکٹرز کی بھر پور صلاحیتیں کار فرما ہیں۔
اِکا دُکا کیسز ہوں، کبھی کسی ایک ملک میں تو کبھی کسی دوسرے ملک میں، تو اس سے سوچا جا سکتا ہے کہ چند ایک ضمیر فروش ہیں جو اپنے نیچ مقاصد کے لیے انسانیت سے گر کر ایسی حرکتیں کر گذرتے ہیں۔ لیکن حالیہ عالمی وباء اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ پوری دنیا ہی تکنیکی طور پر شاید کسی مجرم میڈیکل ریکٹ کے کنٹرول میں پھسی ہوئی ہے۔
ایک ایسی وباء، جس کا وائرس ہوا میں تیر کر پھیل ہی نہیں سکتا۔ ہاتھوں کو چند سیکنڈ دھونے سے ہی وہ مر جاتا ہے۔ اتنی تیزی سے دنیا میں کیسے پھیلے چلے جا رہا ہے؟ ذہن میں اٹھنے والے اس نا معقول سوال کا جواب کہیں سے مل نہ پا رہا تھا۔ اور شاید ملنے کا امکان بھی نہیں۔
لیکن اس کے ساتھ یہ سوال اٹھتا ہے کہ عالمی سطح پر اس طرح کی سازش کی جائے، امن کا نفاذ کرنے والے ادارے ضرور چونکتے ہیں اور انہیں چونکنا بھی چاہیے کہ ایک غیر فطری عمل کیسے برقرار رہے جا رہا ہے۔
دیگر ممالک کے احوال کو تو شاید اس طرح نہیں جان سکتا جیسا کہ خود پاکستان میں رہتے ہوئے یہاں کے حالات سے واقفیت ہے۔ یہاں کی آب وہوا سے واقفیت ہے۔ پھر ایک طرف حکومتی پراپیگنڈا، دوسری طرف میڈیا کی حکومت سے بڑھ کر مہم جوئیاں۔ جبکہ دوسری طرف کراچی سے خیبر تک ہونے والی کرونا وائرس کی صورت میں اموات۔ حکومتی اعداد وشمار کچھ کہانیاں سناتے ہیں اور حقائق جن میں سے کئی کے ساتھ ناچیز کو بھی تجربہ ہوا  کچھ اور ہی کہانیاں بیان کرتے ہیں۔
ایک حقیقی کرونا مریض جس کو ویل چیئر پر ہسپتال لا کر ایڈمٹ کیا جاتا ہے، بے چارہ اٹھنے چلنے تو دور کرسی پر بیٹھا خود کو سنبھال نہیں پا رہا۔ جبکہ دوسری طرف بہت سے افراد جن کو زبردستی کرونا مریض بنا دیا گیا جو اپنے پاؤں پر پورے ہوش وحواس میں چل پھر رہے ہیں۔
لاہور میں ایک فوتگی ہوئی، متوفی کی تدفین وغیرہ کا انتظام ہو رہا ہے کہ انتظامیہ آن پہنچی۔  انتظامیہ: ’’متوفی کی لاش ہمیں دے دیں کرونا مریض ہے۔ ‘‘ ... پسماندگان: صاحب متوفی تو دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہوئے۔ کرونا کا بھلا ان سے کیا تعلق؟
بارہا منانے کے بعد، بالآخر گھر والوں کو کچھ نقدی کی آفر کی گئی۔ اب بھی پسماندگان مردہ فروشی پر آمادہ دکھائی نہ دے رہے تھے۔ لہٰذا مردہ فروشی میں قیمت میں اضافہ پر معاملات کم سرکاری ڈنڈہ جاتی مذاکرات کی دھمکی نے اثر دکھایا اور مردہ سرکار کے حوالے کر دیا گیا۔
ایسے ہی لاہور میں ایک فوتگی پر جب پسماندگان نے متوفی کا مطالبہ کیا تو جواب ملا انہیں کرونا مریضوں میں ایڈ کیا جا رہا ہے۔ راز یہ کھلا کہ کہیں غیبی مخلوق کی طرف سے آرڈرز ہے کہ ہر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر سے 5 مردے روز کے روز کرونا کے نام پر اکٹھے کرو۔ پسماندگان کو کچھ آفرز اور کچھ سرخ سرخ نظروں نے مجبورا اپنے متوفی کو کرونا انفیکٹڈ تسلیم کرنا پڑا۔ یہ تو مردوں کا حال تھا۔ جو زندہ تھوڑی سی بیماری والے سرکاری ہسپتالوں میں کارِ سرکار کے لیے بھینٹ چڑھا دیئے گئے ان کی تعداد کیا ہو گی؟ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
گاہے گاہے سننے میں آتا رھا ہے کہ کچھ ڈاکٹر حضرات اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے دوران کرونا سے متاثر ہوئے اور ان کو قرنطین کر دیا گیا۔ اندازہ ہوتا ہے کہ مردہ فروشی کے کاروبار کا حصہ بننے سے انکار کرنے والوں کو کس کس انداز سے جھکایا گیا ہو گا اور کس کس انداز سے ان کو زیر عتاب لایا گیا ہو گا۔
اور یقینا اس قرنطینہ سے چھٹکارا انہی کو ملے گا جو ’’شاہ‘‘ کی خواہشات کے عین مطابق سر تسلیم خم کریں گے۔
تنزانیہ میں ہونے والی صورتحال جو سامنے آئے، کیسے جانوروں، پھلوں، سبزیوں کے ٹیسٹس کو کو انسانی ناموں سے لیبارٹری میں جمع کروائے گئے کرونا ٹیسٹ کٹس نے پازیٹو ثابت کر دکھایا۔ پوری دنیا کی سکیورٹی ایجنسیوں، دفاعی لائینوں، دماغوں کے منہ پر طمانچہ لگا مجھے تو یہ۔
سوال یہ اٹھتا ہے ذہن میں ہمارے ملک کی دفاعی لائن کہاں سوئی ہوئی ہے؟ پوری دنیا کے ممالک جہاں جہاں یہ معاملات ہو رہے ہیں ان کی سکیورٹی ایجنسیاں کہاں ھیں؟

آخر میں ایک ہی جواب ملتا ہے؟
’’کتی چوراں نال رلی پئی وے۔‘‘



  نوٹ:
            مقالہ نگار کے ساتھ’’انتخاب اردو‘‘ ٹیم کا اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ہے۔
            سائٹ پر کوئی اشتہار دیا گیا تو نیک نیتی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، مشتہر کے ساتھ لین دین وغیرہ معاملات کے ذمہ دار نہیں۔
            آپ بھی اپنی تحریروں کو ’’انتخاب اردو‘‘ کی زینت بنانا چاہیں تو ای میل کریں:
             intikhaburdu@gmail.com



No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot