تازہ ترین

Post Top Ad

Tuesday, May 12, 2020

سیدنا ابوبکرؓ کے گھرانے کی بانٹی ہوئی خیر


کچھ  لوگ خاص ہوتے اور کبھی کبھی تو کنبے کا کنبہ ہی خاص ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی نہیں مانتا تو اپنا ہی نقصان کرتا ہے، انکار کا کیا ہے لوگ تو اپنے خالق کا بھی انکار کرتے ہیں، جو ان کو رزق دیتا ہے، زندگی اور سانس دیتا ہے۔
لیکن کبھی رک کے سوچا کہ  کیسے قیامت کے وہ تین دن ہوں گے کہ جب چھوٹی سی اسماء بنت ابی بکر  پتھروں پر چل کے، نشیب وفراز سے گذر کے غار  ثور  میں   تاریخ کے دو عظیم  مسافروں کو کھانا پہنچاتی رہی ہو گی۔
کیسا مشکل سفر تھا کہ مکے والے جب جان کو آ لیے، ارادہ کہ اب قصہ ختم کرو ، نبی کے قتل کا ارادہ کر لیا، ایسے میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے، لیکن ابوبکرؓ نے ساتھ نہ چھوڑا -رضی اللہ عنہ-
اور کیسا مبارک سفر تھا کہ جس میں امت کے لیے خیر ہی خیر نازل کی گئی۔ ایسے ہی تو نہ کہنے والے نے  کہہ دیا تھا کہ ’’ابوبکر کے گھرانے والو! یہ تمہاری طرف سے اُمت کو بانٹی گئی کوئی پہلی خیر نہیں۔‘‘
سیدہ عائشہ، کہ بالی عمر تھی ...کبھی آٹا گھوندھتے  آنکھ لگ جاتی، کبھی نبی کے  سنگ فرمائش کہ میں نے آج کھیل دیکھنا ہے ...اور رسول بھی ایسے رحمت والے کہ  محبت سے مسکراتے رهتے۔
اکثر کہنے والے کہتے ہیں کہ غزوۂ بنی مصطلق والا سفر تھا، خود سیدہ نے حدیث میں سفر کی وضاحت نہیں  فرمائی۔ ہار گم کر بیٹھیں، ٹوٹا اور کھو گیا۔
دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کے پیے۔ سیدہ نے فورا ہی نبی کریم ﷺ کو خبر دی۔ آپﷺ نے قافلہ رکوا لیا۔
 ہار کی تلاش شروع ہوئی۔ بیابان میں پانی نہ تھا، کچھ ہی دیر میں  قافلے میں بے چینی سی پھیلنا شروع ہو گئی ... سوچتے ہوں گے کہ ایک ہار ہی تو ہے اب چلنا چاہیے۔  سیدنا ابوبکر کو  جب لوگوں کی شکایت پہنچی  کہ حضرت آپ کی لخت جگر کے سبب ہم سب یہاں بیٹھے ہیں  تو آپ خیمہ رسول کی طرف چلے۔
جب وہاں پہنچے تو نبی کریم (ﷺ) سیدہ کی گود میں سر رکھے سو رہے تھے۔ اب سیدنا ابوبکر بول بھی نہ سکتے تھے اور غصہ بھی بہت تھا کہ  آپ کے ہار گم کر دینے کے سبب لوگ مشکل میں پڑ گئے تھے۔  احتیاط سے آپ نے شدید غصے کا اظہار بھی کیا اور اہتمام بھی کہ نبی کریمﷺ کی نیند نہ کھلے۔
مسلمانوں کی اس مشکل کو دیکھ کے رب آسمان کو ترس آ گیا ... اور آیات  تیمم نازل ہوئیں...
ہائے ہائے! میں کہتا ہوں کہ محبوب خاوند سے  محبت کی اس ادا کو دیکھ کے اللہ کو آسمانوں پر بھی اپنی بندی پر پیار آگیا ... ہاں ہاں سیدۂ امت پر، کہ  اس رحمت کا سبب ہو گئیں... کیسا ضبط تھا کہ سیدنا ابوبکرؓ غصے کے مارے  کمر میں کچوکے لگا رہے تھے، سرگوشیوں میں ناراض ہو رہے تھا... اور آپ  سب برداشت کیے جا رہی تھیں کہ محبوب کی آنکھ نہ کھل جائے... بس آسمان پر رب کو پیار آ گیا۔ محبت کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ سہولت کا نزول ہو گیا۔
  اسید رضی اللہ عنہ  کہ  جو ہار ڈھونڈ رہے تھے، اب خوش خوش یہی کہتے پھر رہے تھے:
’’اے ابوبکر کے گھرانے والو! مسلمانوں کے لیے یہ تمھاری پہلی برکت تو نہیں، تمھارے تو بڑے احسان ہیں۔‘‘
رضی اللہ عنہم



  نوٹ:
            مقالہ نگار کے ساتھ’’انتخاب اردو‘‘ ٹیم کا اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ہے۔
            سائٹ پر کوئی اشتہار دیا گیا تو نیک نیتی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، مشتہر کے ساتھ لین دین وغیرہ معاملات کے ذمہ دار نہیں۔
            آپ بھی اپنی تحریروں کو ’’انتخاب اردو‘‘ کی زینت بنانا چاہیں تو ای میل کریں:
             intikhaburdu@gmail.com



No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot