تازہ ترین

Post Top Ad

Tuesday, November 10, 2020

مہنگائی کے بارے مزدور عوام سے پوچھیں

انتخاب اردو, مہنگائی کے بارے مزدور عوام سے پوچھیں,
 

تحریر: جناب عبدالرحمن ثاقب (سکھر)

وزیراعظم عمران نیازی نے کہا ہے کہ مہنگائی نہیں ہے اپوزیشن پروپیگنڈا کررہی ہے، معاشی اشاریے مثبت ہیں۔

جناب وزیراعظم صاحب اگر آپ خود بازار میں جائیں اور غریب عوام سے پوچھیں کہ مہنگائی ہے یا نہیں؟

آپ جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہاں کسی چیز کے مہنگے ہونے کی پرواہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی کبھی آپ نے بازار سے جاکر دال، سبزی، دوائی، لباس، جوتے وغیرہ خریدے ہیں اور نہ ہی گیس، بجلی اور پٹرول وغیرہ کا بل اپنے جیب سے ادا کرتے ہیں۔ آپ کے سارے کام ایک ادنی اشارے پر ہوجاتے ہیں اس لیے آپ مہنگائی کو اپوزیشن کا پروپیگنڈا کہنے میں حق بجانب ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں:   سوشل میڈیا کا دین کے لیے استعمال ... عملی تربیتی نصاب کا حصہ

جناب وزیراعظم صاحب آپ کسی دن بغیر پروٹوکول کے بازار میں جائیں یا اپنے وزراء کو بھیج کر احوال معلوم کریں تو آپ کو شاید کہ غریب عوام کی تکلیف کا احساس ہوجائے لیکن یقین واثق ہے کہ آپ نہ خود بازار جانے اور عوام سے مہنگائی میں پسے ہوئے عوام کے احوال جاننے کی کوشش کریں گے اور نہ ہی آپ کے وزیر،مشیر اور ترجمان عوام کا سامنا کرنے کی جرات کرسکیں گے۔

جناب وزیراعظم صاحب! اگر مہنگائی نہیں ہوئی اور قوم پر خود ساختہ آٹا اور چینی کے بحران مسلط نہیں کیے گئے تو آپ نے بار بار نوٹس کس چیز کے لیے تھے؟

جناب وزیراعظم صاحب! اگر ادویات مہنگی نہیں ہوئیں تو آپ نے اپنے ایک وزیر صحت کو وزارت سے ہٹا کر پارٹی کا جنرل سیکرٹری کیوں بنایا تھا؟ اور ایک سال میں تین دفعہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے سے ادویات سستی ہوئی ہیں یا مہنگی؟ اس کا جواب کسی غریب شخص سے معلوم کریں جو ہر ماہ اپنے بوڑھے والدین یا اپنی ادویات خریدنے پر مجبور ہے اور وہ طاقت کھو چکا ہے کہ مکمل ادویات خرید لیا کرے بلکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح سے کم سے کم دوائیاں خرید کر گذارا کرلے۔ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ ادویات کی قیمتوں میں پانچ سو فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور آپ خود قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے کر اپوزیشن کا پروپیگنڈا قرار دے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:   جان کی امان پائیں تو عرض کریں؟!

جناب وزیراعظم صاحب! آپ نے اپنے 126 دن کے دھرنے میں بجلی کے بل جلائے تھے کہ میں حکمرانوں کی کرپشن کی قیمت مہنگی بجلی کی صورت میں ادا نہیں کرتا۔ لیکن اس دن بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت کیا تھی اور أج کیا ہے؟ ذرا اڑھائی سال پرانے بجلی کے بل نکال کر آج کے بجلی کے بلوں کا موازنہ کرکے دیکھ لیں تو شاید کہ آپ کو اندازہ ہو جائے کہ آپ نے صرف اڑھائی سال کے عرصے میں بجلی کی قیمت دوگنی بڑھا دی ہے۔

جناب وزیراعظم صاحب ! گیس کی قیمتوں میں کتنا اضافہ ہوا ہے وہ بھی آپ اپنی حکومت کے ریکارڈ سے چیک کرلیں۔ آپ کے وزیر اسد عمر صاحب حزب اختلاف میں ہوتے ہوئے کیا فرماتے تھے وہ بھی اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ یہ ملکی پیداوار ہے اتنی مہنگی کیوں ہے؟ لیکن آپ نے دوسری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی طرح سے گیس کے نرخوں میں بھی اضافہ بڑی فراخ دلی سے کیا اور کئی دفعہ کیا ہے۔

جناب وزیراعظم صاحب! گذشتہ دور حکومت میں چینی 45 روپئے فی کلو ملتی تھی اور آٹا 35 روپئے فی کلو دستیاب تھا آپ کی چھتری تلے آپ کے اردگرد بیٹھے ہوئے لوگوں نے خود ساختہ بحران پیدا کرکے عوام کو خوب لوٹا اور آپ نے بھی کمیشن بنانے اور فرانزک رپورٹ کے نام پر عوام کو خوب بیوقوف بنا کر داد وصول کی۔ اس کمیشن اور فرانزک رپورٹ کا نہ کوئی نتیجہ نکلنا تھا اور نہ ہی نکلا اور نہ ہی مستقبل میں نکلنے کا کوئی امکان ہے کیونکہ آٹا، چینی کے بحران کے ذمہ داران آپ کے پاس اور آپ کے اردگرد بیٹھے ہوئے ہیں اور انہیں کوئی خوف اور خطرہ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:   فدک غصب کیا تو کیا دولت گھر لے گئے؟!

جناب وزیراعظم صاحب! آپ کے وزیر،مشیر اور ترجمان سوائے تنقید کرنے اور آپ کو غلط رپورٹیں پیش کرنے کے کچھ نہیں کرتے بلکہ وہ آپ کی حکومت کے لیے بھی خطرہ ہیں۔

جناب وزیراعظم صاحب! آپ آٹھ لاکھ روپئے سر زائد تنخواہ وصول کرتے ہیں اور آپ دو افراد ہیں یعنی ایک آپ خود اور ایک آپ کی زوجہ محترمہ، آپ نے ایک دفعہ ایک تقریر میں کہا تھا کہ میرا اس تنخواہ میں گذارا نہیں ہوتا تو بتائیے کہ جس شخص کے چار بچے اور ایک بیوی ہو اور اس کی آمدن پندرہ سے بیس ہزار روپئے ماہانہ ہو وہ کس طرح سے گذارا کرسکتا ہے؟

آج غریب عوام پریشان ہے وہ اپنی اور بچوں کی خوراک پوری نہیں کر پارہے۔ غریب پریشان ہے کہ وہ خوراک خریدےیا ادویات خریدے، وہ بجلی اور گیس کے بل ادا کرے یا بچوں کی اسکول کی فیسیں ادا کرے یا مکان کا کرایہ ادا کرے۔

جناب وزیراعظم صاحب! آپ نے قوم کو بڑے سہانے خواب دکھائے تھے اور مہنگائی کو ختم کرنے کے بلند و بانگ دعوے بھی کیے تھے آج آپ کے وہ نعرے اور دعوے کہاں چلے گئے؟

آپ نے تو اپنے نعروں اور دعووں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی مسلط کی ہوئی مہنگائی سے یکسر انحراف کرکے اپوزیشن کا پروپیگنڈا قرار دے دیا ہے۔ لیکن عوام نہ اتنی بھولی بھالی اور نہ ہی بیوقوف ہے جو آپ کی اس بات پر یقین کرلے کیونکہ انہیں روز اپنے گھر کا نظام چلانے کے لیے اشیاء ضروریات زندگی خریدنا پڑتی ہیں اور انہیں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے آپ سے گذارش ہے کہ مہنگائی کو اپوزیشن کا پروپیگنڈا قرار دینے کی بجائے اور حقائق سے منہ چھپانے کی بجائے مسائل کے حل کی طرف توجہ دیں۔

یہ بھی پڑھیں:   سیدنا ابوبکر ﷜ کے گھرانے کی بانٹی ہوئی خیر

باقی آپ کے مثبت اشاریوں کے دعووں سے عوام کو کوئی غرض نہیں ھے اور نہ ہی وہ ان اشاریوں کی طرف دیکھتے ہیں انہیں صرف اپنی ضروریات زندگی کی اشیاء سستی ملنی چاہییں۔ اور اسی طرح سے وہ آئی ایم ایف یا کسی اور عالمی ساہوکار ادارے کی منفی یا مثبت رپورٹ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے بلکہ انہیں اپنے تن اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے سستی اشیاء زندگی کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ کسی پروپیگنڈے کی۔

 

 

 

  نوٹ:

             مقالہ نگار کے ساتھ’’انتخاب اردو‘‘ ٹیم کا اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ہے۔

             سائٹ پر کوئی اشتہار دیا گیا تو نیک نیتی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، مشتہر کے ساتھ لین دین وغیرہ معاملات کے ذمہ دار نہیں۔

             آپ بھی اپنی تحریروں کو ’’انتخاب اردو‘‘ کی زینت بنانا چاہیں تو ای میل کریں:

              intikhaburdu@gmail.com

 

 

 

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot