دل کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی مولوی ایسا کرتا پکڑا جائے تو اس
کو دوہری سزاء دی جائے کیونکہ اس نے نے صرف
معصوم کی چادر عصمت داغ دار نہیں کی بلکہ اپنے طبقے کی سفید لٹھا چادر کو بھی
سیاہ دھبہ لگا دیا ۔
ضرور پڑھیں: بیرسٹر
ابوبکر تمباڈو ... میانمار میں ہوئے ظلم کے خلاف
ایک طاقتور آواز
کچھ روز سے بچوں کے
ساتھ زیادتی کا معامله سوشل میڈیا اور ملکی میڈیا پر بہت نمایاں ہے۔ لیکن اس معاملے
کا تکلیف دہ ترین پہلو اس کی آڑ میں کھیلا جانے والا نفرت کا کھیل ہے۔
مولوی شمش کیس سے لے کر آج تک لبرل
حضرات اور ان کے بعض نام نہاد ’’مذہبی‘‘ ہمنواؤں کی زبان ہی تالو کے ساتھ نہیں چپک
رہی۔ ان کا خبث باطن اس درجہ تک جا پہنچا ہے کہ اب کھل کے مدرسے بلکہ مساجد بارے بھی زبان سگ آوارہ کو چلا رہے ہیں
اور نفرت کا یہ کھیل بظاہر بچوں سے ہمدردی کی آڑ میں کھیلا جا رہا ہے۔
ضرور پڑھیں: سوشل میڈیا پر اسلام مخالف مواد کا پھیلاؤ
ان لوگوں کا گھٹیا معیار اور ذہنیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ
اگر کوئی ہم جیسا محض یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ ’’مجرم کو مجرم سمجھیے لیکن اس کے جرم
کی آڑ میں تمام ادارے، تمام علماء اور ہر داڑھی اور پگڑی والے کی تذلیل مت کیجیے۔‘‘
تو یہ سگان آوارہ اس انتہائی معقول مطالبے کو بھی مجرم کی ہمدردی کہتے ہیں۔
نوٹ:
مقالہ نگار کے ساتھ’’انتخاب اردو‘‘ ٹیم
کا اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ہے۔
سائٹ پر کوئی اشتہار دیا گیا تو نیک
نیتی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، مشتہر کے ساتھ لین دین وغیرہ معاملات کے ذمہ دار
نہیں۔
آپ بھی اپنی تحریروں کو ’’انتخاب
اردو‘‘ کی زینت بنانا چاہیں تو ای میل کریں:
No comments:
Post a Comment