تحریر: جناب امیر افضل اعوان
نبی کریمﷺ کی سیرت
مبارکہ تمام عالم کے لئے قابل تلقید اور کھلی کتاب کی مانند ہے جس کا ہر کوئی مطالعہ اور رہنمائی حاصل کر سکتا ہے،آپﷺ
نے انسانیت کی بنیاد پر غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا مظاہرہ کیا اور ہمیں بھی
اس کا درس دیا، قرآن پاک میں ارشاد ربانی
ہے کہ
’’یقینا تمہارے لئے رسول اللہ(ﷺ) میں عمدہ نمونہ ( موجود) ہے،
ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالٰی کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ
تعالٰی کی یاد رکرتا ہے۔‘‘ (الاحزاب: 21)
رسول کریمﷺ نے جہالت
کے اندھیروں میں بھٹکتی انسانیت کو فلاح کی راہ دکھائی، سرکار دو عالم نبی پاکﷺ نے
جو معاشرتی نظام پیش کیا اس میں نہ صرف مسلمانوں کو آپس میں حسن سلوک سے پیش آنے
کی تلقین کی بلکہ غیر مسلموں سے بھی حسن معاشرت کی آپﷺ نے تعلیم دی اور اس کا خود
بھی آپﷺ نے عملی مظاہرہ کر کے دکھایا، غیر مسلم چاہے مہمان ہونے یا پھر ہمسایا‘ مسلم
ریاست کے ایک شہری کی صورت میں رسول اللہﷺ
نے اس سے اچھے سلوک کرنے کی تلقین و تعلیم دی ہے، یہاں تک کہ اس کی جان و مال اور عزت
و آبرو کا تحفظ مسلم حکومت و معاشرہ کی اہم ترین ذمہ داری قرار دیا ہے۔
غیر مسلم سے حسن
سلوک کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو گی کہ نبی کریمﷺ نے جب ایک یہودی کا جنازہ گذرتے
ہوئے دیکھا تو آپﷺ کھڑے ہو گئے، اس حوالہ سے ایک حدیث مبارکہ میں منقول ہے:
سیدنا عبدالرحمن بن ابی لیلیt بیان کرتے ہیں کہ سیدنا سعد بن حنیفt اور
سیدنا قیس بن سعدt قادسیہ
میں بیٹھے ہوئے تھے، تو ان دونوں کے پاس سے ایک جنازہ گذرا تو دونوں کھڑے ہو گئے ان
سے کہا گیا کہ یہ زمین والوں یعنی ذمیوں میں سے ہیں، تو ان دونوں نے کہا کہ نبی کریمﷺ
کے پاس سے ایک جنازہ گذرا، آپﷺ کھڑے ہوگئے تو آپﷺسے کہا گیا کہ یہ یہودی کا جنازہ
ہے۔ آپﷺنے فرمایا کہ ’’کیا اس کی جان نہیں تھی؟‘‘ (صحیح بخاری، جلد اول، حدیث: 1255)
امام بیہقی نے روایت
کی ہے کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں ایک مسلمان نے ایک ذمی اہل کتاب کو قتل کر دیا، معاملہ
حضورﷺ کے سامنے پیش ہوا توآپﷺ نے فرمایا کہ ’’مجھ پر ذمی کے عہد کو پورا کرنے کی زیادہ
ذمہ داری ہے۔‘‘ اور مسلمان کا قصاص میں قتل کرنے کا آپﷺ نے حکم فرمایا۔
اسی طرح کی کئی
روایتیں خون بہا کی بھی آئی ہیں جب ہم عہد نبویﷺ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اسلام
کے ابتدائی دور میں تین گروہ مسلمانوں کے مد مقابل نظر آتے ہیں، مشرکین عرب، یہودی
اور عیسائی، نبی پاکﷺ نے ان تینوں غیر مسلم گروہوں سے جو حسن سلوک فرمایا اور رواداری
برتی اس سے اغیار کو بھی انکار نہیں ۔
نبی کریمﷺ نے غیر
مسلموں کے ساتھ معاہدہ کیا تو ان کے جان و مال کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا اور معاہدہ
کی اگر کہیں کوئی خلاف ورزی ہوئی تو اس کا سخت درعمل سامنے آیا، غیر مسلموں کے ساتھ
حسن سلوک کے حوالہ سے ایک اور حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ
سیدنا ابن صفوان بن سلیمt سے روایت ہے کہ
آپﷺ نے فرمایا: ’’یاد رکھو جس شخص نے اس ( غیر مسلم)شخص پر ظلم کیا جس سے معاہدہ
ہوچکا ہو ( جیسے ذمی یا مستامن)یا اس کے حقوق کو نقصان پہنچایا، یا اس پر اس کی طاقت
یا استطاعت سے زیادہ بار ڈالا ( جیسے کسی ذمی سے اس کی استطاعت سے زیادہ جزیہ لیا یا
اس مستامن سے جو دارالسلام میں تجارت کی غرض سے آیا ہو اس کے مال کی تجارت میں سے
عشر یعنی دسویں حصے سے زیادہ لیا ہو۔) اور یا اس کی مرضی و خوشنودی کے بغیر اس سے کوئی
چیز لی ہو تو میں قیامت کے دن اس کے خلاف احتجاج کروں گا۔‘‘ (مشکوۃ شریف، جلد نمبر
سوم، حدیث: 1138)
غیرمسلموں کے ساتھ
بہتر رویوں اور حسن سلوک کے حوالہ سے بے شمار روایات موجود ہیں ایک اور حدیث مبارکہ
میں مرقوم ہے:
سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’جس نے ذمی کو قتل کیا جسے اللہ اور اس کے رسولﷺ
کی پناہ حاصل ہوئی ہے وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ پائے گا حالانکہ جنت کی خوشبو ستر
سال کی مسافت سے محسوس ہوتی ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، جلد دوم، حدیث: 845)
سرکار دو عالمﷺ
نے درگزر، اخلاق و مروت سے کام لے کر غیر مسلموں کے ساتھ انسانیت کی بنیاد پر بہترسلوک
معمول بنائے رکھا، اس حوالہ سے تو اس بڑھیا کا ذکرہی کافی ہے جو آپﷺ پر کچرا پھینکا
کرتی تھی۔
سیدنا عمرو بن شعیبt سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کافر
ذمی کی دیت مسلمان کی دیت کے نصف ہے۔‘‘ (سنن نسائی، جلد سوم، حدیث: 1110)
واضح رہے کہ دیت
کا معیار دور بنوتﷺسے 1 دینار یا 11 درھم تھا جو کہ
سیدنا عمرt کے دور میں بڑھایا گیا مگر اس وقت
بھی غیر مسلموں کے لئے دیت کی رقم میں اضافہ نہ کیا گیا۔
(مشکوۃ شریف، جلد
پنجم، حدیث: 414) میں سیدنا علیt سے
مروی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مدینہ کے ایک یہودی نے کچھ دینار نبی کریمﷺ سے لینے تھے،
اس نے آپﷺ سے مطالبہ کیاآپﷺ کے پاس اس وقت اس کا قرض ادا کرنے کو کچھ نہ تھا جس پر
اس یہودی نے کہا کہ جب تک آپﷺ قرض ادا نہ کریں گے تو میں یہاں سے نہیں جاؤں گا اور
نہ ہی آپﷺ کو جانے دوں گا۔ اس طرح آپﷺ نے اسی جگہ ظہر‘ عصر‘ مغرب اور عشاء کی اور
پھر (اگلی صبح) فجر کی نماز پڑھی، صحابہ کرام] اس صورتحال پر طیش میں آکر یہودی کو ڈرانے دھمکانے
لگے جس پر آپﷺ نے انہیں منع فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے مجھے منع کیا ہے کہ میں اس شخص
پر ظلم کروں جس سے عہد کیا گیا ہو جب دن نکلا تو وہ یہودی آنحضرتﷺ کا کردار و اخلاق
دیکھ کر مسلمان ہو گیا۔
رسول کریمﷺ غزوات
میں فتح کے بعد بھی کسی کو اعتدال سے گزرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے، فتح خیبر کے موقع
پر ایسی ہی صورتحال سامنے آئی تو یہودیوں کا ایک گروہ شکایت لے کر آپﷺ کی خدمت میں
حاضر ہوا، حدیث مبارکہ میں اس کا بیان یوں ملتا ہے:
خالد بن ولیدt بیان
کرتے ہیں کہ میں حضور اکرمﷺ کے ساتھ جہاد میں شریک تھا‘ خیبر کے موقع پر، آپﷺکے پاس
خیبر کے یہود آئے اور شکایت کی کہ لوگوں نے ان کے جانوروں کے باڑے جلدی میں لوٹ لیے
ہیں۔ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’خبردار! ذمی کافروں کے اموال ناحق لینا جائز نہیں۔‘‘
(سنن ابوداؤد، جلد سوم، حدیث: 414)
توجہ فرمائیے کہ
رحمت للعالمینﷺ کس طرح اپنے دشمنوں کو بھی معاف کرتے رہے اور ان کو ہر طرح سے تحفظ
فراہم کیا گیا، فتح مکہ کے موقع پر نبی پاکﷺ کے سامنے وہ لوگ تھے جن کے دامن ماضی پر
عداوت اسلام کے سینکڑوں دھبے تھے، رسول اللہﷺ کا ایک ہی اشارہ ان کی گردن زنی کیلئے
کافی تھا لیکن رحمت عالم کے سیل کرم کی ایک موج ان کی سیاہ کاریوں کو بہا کر لے گئی،
فرمایا: ’’آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں، جاؤ تم آزاد ہو۔‘‘
نبی کریمﷺ کے اس
حسن سلوک کا یہ نتیجہ نکلا کہ آپﷺ کی جان کے دشمن آپ ﷺ پر جان قربان کرنے والے بن گئے ۔
حسن سلوک کی ایک
مثال ثمامہ بن اثالt کے
قبول اسلام کے واقعہ سے بھی ثابت ہے، ثمامہ اسلام کا بدترین دشمن تھا جب اس کو آپﷺ
کے سامنے گرفتار کر کے پیش کیا گیا توآپﷺ نے اسے بغیر سزا کے معاف کردیا جس پر وہ
مشرف بہ اسلام ہوگیا، اسی طرح اللہ کے رسولﷺنے عکرمہ وصفوان بن امیہ اور ابوسفیان کے
ساتھ حسن اخلاق کا برتاؤ کیا اسی طرح کی اور کئی رواداری کی مثالیں ہیں جو اس بات کی
شاہد ہیں کہ آپﷺ کے حسن سلوک سے کئی مشرکین عرب دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔
آج ضرورت اس امر
کی ہے کہ ہم اپنے کردار و عمل میں سیرت طیبہ سے راہنمائی لے کر وہ وسعت پید کریں جو
کہ ہمارے پیارے نبیﷺ کی ذات بابرکت کا خاصہ تھی اور جس کی آپﷺ نے ہمیں تلقین فرمائی،
یقینا اگر ہم اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو غیر مسلم اسلام کو دین حق جانتے ہوئے دائرۂ
اسلام میں داخل ہوجائیں گے اور اس طرح ہم بھی اپنی دنیا و آخرت کو محفوظ بنا سکتے
ہیں۔
No comments:
Post a Comment