( ) میانمار
کی آنگ سان سوچی کو عالمی عدالت انصاف میں کھینچ لانے والی یہ شخصیت بیرسٹر ابوبکر
تمباڈو جو کہ ایک چھوٹی سی افریقی ریاست گیمبیا کے وزیر قانون وانصاف ہیں۔
یاد رہے کہ ابوبکر تمباڈو گیمبیا کے دارالحکومت بنجول میں
سنہ 1972ء میں پیدا
ہوئے۔ روانڈا میں جب انسانی نسل کشی میں آٹھ لاکھ افراد ہلاک کیے گئے تو ان کی
خدمات کی پیش نظر اقوام متحدہ نے انہیں وہاں اپنے ٹرائی بیونل کا پراسیکیوٹر مقرر
کیا۔
ضرور
پڑھیں: سوشل
میڈیا پر اسلام مخالف مواد کا پھیلاؤ
انہوں نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’میں محسوس
کر رہا ہوں کہ حالات اس سے کہیں زیادہ سنگین ہیں جو میں اخبار کے صفحات یا ٹی وی
سکرین پر دیکھتا ہوں۔
روہنگیا مسلمانوں کے حالات کو اخبار وٹی وی وغیرہ میں سننے
کے بعد بنگلہ دیش کے ساحلی شہر پہنچے اور کاکس بازار میں قائم پناہ گیزیں کیمپ میں
کٹی پھٹی حالت میں بچ کر آنے والے روہنگیا مسلمانوں سے ان کی داستان سن کر انہوں
نے ان مظلوموں کی آواز بننے کا عزم کیا۔
جہاں انہوں نے سنا کہ فوج اپنی عوام کے ساتھ شامل ہو کر
روہنگیا مسلموں کے خلاف ایک منصوبہ بندی کے تحت حملے کرتے ہیں‘ ان کے مکانات کو
نذر آتش کرتے ہیں‘ ماؤں کی گود سے ان کے بچے چھین کر بھڑکتی آگ میں پھینک دیتے
ہیں‘ مردوں کو اکٹھا کر کے قتل کر دیا جاتا ہے اور عورتوں کا گینگ ریپ کرنے کے
علاوہ دیگر پر تشدد کارروائیاں کرتے ہیں۔
ضرور
پڑھیں: ایرانی
طبل جنگ ... لیکن کس کے لیے؟!
مسلمانوں کے مزاج اور طبیعت میں شاید یہ خصوصیت اللہ تعالیٰ
کی طرف سے ودیعت کر دی گئی ہے،کہ مسلمانوں کو جہاں کہیں تکلیف ہو ،اسے دنیا کی دوسری
طرف رہنے والا مسلمان کسی نہ کسی سطح پر ضرور محسوس کرتا ہے،اور یہی چیز انہیں ان کے
دشمنوں کیلئے ناقابل قبول بنا دیتی ہے۔اس کی ایک مثال بیرسٹر یرسٹر ابوبکر تمباڈو وزیر
قانون و انصاف، جمہوریہ گیمبیا افریقہ ہیں، چھوٹی سی افریقی ریاست کی وہ پرعزم اور
بڑی شخصیت، جس نے اسلامیت اور انسانی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے برما کی حکومت اور فوج
کے خلاف گذشتہ نومبر میں ہیگ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں روہنگیا مسلمانوں کے
قتل عام کا مقدمہ دائر کیا، خود لڑا، آنگ سانگ سوچی کو ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کر کے
جرح کی، بالآخر آج مقدمہ جیت لیا ۔
ضرور
پڑھیں: آٹے
کا بحران اور جھوٹے وزیر مشیر اور ترجمان
یہ الگ بات ہے کہ ہر مسلمان کو اس دکھ کا جو کسی مسلمان کو پہنچے
وہ کس نوعیت یا درجے کا ہے لیکن اس کے دل کی گھنٹی ایک بار ضرور بج جاتی ہے اور اسے
افسوس ہوتا ہے، مگر اس کا اظہار کرنے کا طریقہ ہر ایک کا الگ الگ ہوتاہے۔ جس کی زندہ
مثال یہ بیرسٹر ابو بکر تمباڈو ہیں۔
ایٹمی طاقت رکھنے والی اور دیگر متمول مسلم ریاستوں کے ذمہ
داران کے لیے ایک سوالیہ نشان تو کھڑا ہوتا ہے کہ اتنی طاقت ہونے کے باوجود جو کام
ان سے نہ ہو سکا ایک چھوٹی سی افریقی ریاست کے وزیر قانون وانصاف نے کر دکھایا۔
اور یقینا بیرسٹر ابوبکر تمباڈو مظلوم مسلمانوں کے حق میں اتنی طاقتور آواز بننے پر
خراج تحسین کے مستحق ہیں۔
نوٹ:
مقالہ نگار کے ساتھ’’انتخاب اردو‘‘ ٹیم
کا اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ہے۔
سائٹ پر کوئی اشتہار دیا گیا تو نیک
نیتی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، مشتہر کے ساتھ لین دین وغیرہ معاملات کے ذمہ دار
نہیں۔
آپ بھی اپنی تحریروں کو ’’انتخاب
اردو‘‘ کی زینت بنانا چاہیں تو ای میل کریں:
No comments:
Post a Comment