تحریر: جناب عبدالرحمن ثاقب سکھر
کیا یہ وزیر، مشیر اور ترجمان رات دن جھوٹ بولنے کےلیے بھرتی
کیے جاتے ہیں؟ اور عوام کا خون مختلف ٹیکسز کی مد میں نچوڑ کر ان کی تنخواہیں اور مراعات
پوری کی جاتی ہیں۔
اگر آٹے کا بحران نہیں تو لوگ لائنوں میں لگ کر کیوں خوار ہورہے
ہیں؟
چکی کا آٹا کتنا مہنگا ہوتا ہے؟
کیا چکی کا اور فائن آٹا کھانا ان مقتدر لوگوں کا حق، بنتا ہے
غریب غرباء نہیں کھاسکتے؟
ضرور
پڑھیں: سوشل
میڈیا پر اسلام مخالف مواد کا پھیلاؤ
ڈیڑھ سال سے کم عرصہ میں آٹا کس طرح سے 34 روپئے کلو سے 70 روپئے
کلو تک پہنچ گیا؟
کیا کبھی کسی نے نوٹس لینے کا سوچا بھی کہ چینی 50 روپئے سے
بڑھ کر کس طرح 80 روپئے کلو ہوئی اور اربوں روپئے کس کس کی جیب میں چلے گئے؟
اگر چینی کی قیمت میں اضافہ کرنے والی مافیا کا نوٹس لے لیاجاتا
تو آج نہ آٹے کا بحران پیدا ہوتا اور نہ ہی آٹے کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوتا۔ لیکن
جب سب مافیاز اقتدار میں ہوں اور ہوں بھی کنگ میکر پھر غریب کو لٹنے سے کون روک سکتا
ہے؟
اگر کوئی آزادانہ عدالتی کمیشن چینی اور آٹا بحران پر تحقیق
کرے تو اقتدار میں بیٹھے ہوئے اور بادشاہ گروں کے نام سامنے آئیں گے۔
ضرور
پڑھیں: ایرانی
طبل جنگ ... لیکن کس کے خلاف؟!
باقی یہ وزیر،مشیر اور ترجمان تو حکومت نے جھوٹ بولنے اور عوام
کو غلط بیانی کے ذریعہ سے گمراہ کرنے کےلیے رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ پورے ملک میں آٹے کی
قلت ہے اور عوام مارے مارے پھر رہے ہیں اور انہیں صرف چکی کا آٹا مہنگا نظر آتا ہے
گویا کہ ان کی سوچ کے مطابق فلور مل کا آٹا انتہائی سستے داموں اور وافر دستیاب ہیں۔
یہ بھی جھوٹ بولنے کی ڈیوٹی پوری کررہے ہیں جیسا کہ کسی نے کہا تھا کہ: جھوٹ اتنا زیادہ
بولو کہ وہ سچ نظر آنے لگے۔ یہ لوگ بھی اسی مقولے پر عمل پیرا ہیں۔
نوٹ:
مقالہ نگار کے ساتھ’’انتخاب اردو‘‘ ٹیم
کا اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ہے۔
سائٹ پر کوئی اشتہار دیا گیا تو نیک
نیتی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، مشتہر کے ساتھ لین دین وغیرہ معاملات کے ذمہ دار
نہیں۔
آپ بھی اپنی تحریروں کو ’’انتخاب
اردو‘‘ کی زینت بنانا چاہیں تو ای میل کریں:
No comments:
Post a Comment