تحریر: جناب عبدالسلام فیصل
دنیا میں اقتدار کی کشمکش نے مذاہب کو ایسا بھڑوا دیا کہ
علم کی دنیا میں نئی نئی اصطلاحات سامنے آنے لگیں ۔ صلیبی جنگوں ، مغلیہ شہنشاہوں
اور سلطنت عثمانیہ کے قیام سے اختتام تک ، اس کے علاوہ ہٹلر و میسولینی کے
ڈکٹیٹرازم سے لیکر روس اور چائنہ کے کیمونزم تک جتنی بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں اس کے
پیچھے مذاہب کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔
لیکن ہزاروں لاکھوں جانوں کے ضیاع کے بعد جب ان صاحبان
اقتدار کو دوسرے مذاہب پر ریاستی سطح پر بڑی کامیابیاں میسر نہیں آئیں ۔۔ تو انہوں
نے باہمی اتحاد سے ایسے مباحث کو جنم دیا جن کامقصد اسلام کے مخالف جتنے بھی مذاہب
تھے سب کو کامیاب کرنا ، انکا اتحاد قائم کرنا۔
دنیا کے تمام مذاہب کو سچ ماننا اوراسلام کے خلاف بولنے
کو" روایتی سیکولرازم " بنا دیا ۔ ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ حقیقی
سیکولرازم آخر کیا تھا۔ اور اس روایتی سیکولرازم نے کیسے جنم لیا!
’’دی آکسفورڈ ڈکشنری‘‘ میں لفظ سیکولر کے متعلق درج ہے:
اہل کلیسا کا وہ
رکن جو دنیا میں رہتا ہو یعنی (دنیاوی امور اور معاملات میں دلچسپی رکھتا ہو) اور
جو صرف عیسائی خانقاہوں میں عزلت گزیں نہ ہو اور باقائدہ مذہبی زندگی سے امتیاز
رکھتا ہو۔
دوسری جنگ عظیم کی بد ترین قتل و غارت اور سائنس اور فلسفہ
کی عیسائیت یا مذہب پر برتری نے ایک ایسی مشنری ایجاد کی جو عملی طور پر
"بنیاد پرست" عیسائیت پر عمل پیرا ہو کر گرجے تک محدود نہ رہے ۔ بلکہ
دنیاوی امور میں اتنی مہارت رکھتی ہو کہ فلسفہ و سائنس کی رکاوٹوں کے باوجود ’’صلیبیت‘‘
کا تحفظ یقینی بنا سکے۔
تاریخی اعتبار سے تو سیکولرازم کی اصطلاح ارتقاء پذیر رہی
ہے ۔ صلیبی سیاسی امور ڈائریکٹ پادریوں کے مشوروں سے چلائے جاتے تھے ۔ جیسے سلطنت
عثمانیہ کے خلاف رومیوں اور یونانیوں کی بغاوت میں اور عیسائی فرقوں کے اتحاد میں
اہل کلیسا کا کردار سب کے سامنے رہا ۔
لیکن آج کا سیکولرازم اس سے بہت مختلف ہے ۔ اہل کلیسا نے اس کے ذریعے سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مقاصد حاصل کیئے ہیں ۔
کہیں پر اقلیت کے نام پر محدود جمہوری حقوق حاصل کئے اور کہیں پر سیکولرازم کے نام پر تبلیغی مشن کے کلی اختیارات حاصل کئے ۔ حقیقی معنوں میں تاریخ نے سیکولرز کو اہل کلیسا کے مفادات کا محافظ ہی بنایا ہے۔
لیکن آج کا سیکولرازم اس سے بہت مختلف ہے ۔ اہل کلیسا نے اس کے ذریعے سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مقاصد حاصل کیئے ہیں ۔
کہیں پر اقلیت کے نام پر محدود جمہوری حقوق حاصل کئے اور کہیں پر سیکولرازم کے نام پر تبلیغی مشن کے کلی اختیارات حاصل کئے ۔ حقیقی معنوں میں تاریخ نے سیکولرز کو اہل کلیسا کے مفادات کا محافظ ہی بنایا ہے۔
ہم تاریخ کے ان جھروکوں میں بھی جھانک لیتے ہیں جہاں سے اس
ازم کی ابتداء باقائدگی سے ہوئی۔
ڈاکٹر شاہد فریاد لکھتے ہیں کہ ’’سیکولرازم‘‘ کے پہلی بار
نظام العمل کا اعلان انگلینڈ میں ’’جارج جیکب ہال اوک ‘‘ کے ذریعے 1846 میں کیا
گیا۔ (انسائیکلوپیڈیا آف امریکانا جلد 24 صفحہ نمبر 510)
اسی طرح ’’انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا‘‘ کے مطابق ’’سیکولرازم‘‘
کا مفہوم ہے:
’’سماج میں
اخرویت سے رخ پھیر کر دنیویت پر توجہ دینے کی ایک تحریک۔‘‘ (صفحہ نمبر 594، جلد
نمبر10، شیکاگو1943)
یعنی انسانوں کا اخروی زندگی سے ایمان پھیر کر مادیت کی طرف
رحجان بنانا ہی اصل میں سیکولرازم ہی ہے۔
یہ معنی تاریخی اعتبار سے صحیح ترین ہی سمجھا جائے گا ۔
کیونکہ تاریخ نے ایسے مناظر بھی دیکھے ہیں کہ صلیبی سیاستدانوں پر مغربی
سائنسدانوں نے ایسی علمی اور منطقی یلغار کی کے یہ لوگ اپنا وہ مقام باقی رکھ نہ
سکے جس پر یہ لوگ فخرکیا کرتے تھے ۔ اس لئے ان لوگوں نے اہل کلیسا سے صرف اس حد تک
اپنے روابط قائم رکھے کہ انکو حکومتوں میں عبادت کی اجازت میسر تھی ۔ قانون سازیوں
میں پادریوں کی رتی برابر عمل داری باقی نہیں رہی۔
اور سیکولرازم مکمل طور پر دین بیزاری کا نام بن گیا۔
’’انسائیکلوپیڈا آف سوشل سائنسز‘‘ میں اس کی تعریف کچھ یوں
کی گئی ہے:
یعنی ’’ اگر
سیکولرازم کو فلسفیانہ دائرہ میں دیکھیں تو یہ نظریہ الہیات اور ما بعد الطبیعات
کے خلاف بغاوت کرتا ہے ۔ اس طرح سیکولرازم سماجی اور سیاسی اداروں کا نئے سرے سے جدول
بنانے کیطرف رہنمائی کرتا ہے۔‘‘ (جلد نمبر 13 صفحہ نمبر 631)
ان تعریفات سے ثابت ہوتا ہے کہ سیکولرازم ایک ایسی تحریک ہے
جس کا مقصد ایسے حکومتی نظام کو لانا ہے جو دین و مذہب کے اصول و ضوابط سے قانون
سازی نہ کرتا ہو بلکہ دین و مذہب سے آزاد ہو کر قانون سازی کرتا ہو ۔ اور ایسا شخص
جو دین و مذہب سے بغاوت کا درس عام کرے ایسے شخص کو سیکولر کہا جاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’سیکولرازم‘‘ کو فروغ کس طرح دیا
جاتا ہے ۔ اور ایک شخص کو سیکولر کس طرح بنایا جاتا ہے۔ ’’انسائکلوپیڈیا آف ریلیجن‘‘
میں سیکولرازیشن کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
سیکولر مقاصد
کیلئے حکومت چرچ کی جائیداد کو اپنے قبضے میں کرے ، بعض اوقات یہ جائیداد خود غرض
اور نا اہلیت کی بنا پر لی جا تی ہے اور بعض اوقات ریاست جائیداد کو خیراتی اداروں
یا تعلیمی مقاصد کے لئے وقف کرے ۔ چوتھی صدی عیسوی میں چرچ کے پاس بہت سی جائیداد
تھی اور قرون وسطیٰ میں بہت ساری زمین چرچ کے قبضے میں تھی ، پھر وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ حکمرانوں کو چرچ سے جائیداد اکٹھی کرنے کی ترغیبات دی گئیں اور اس طرح ’’چارلس مارٹل ‘‘ نے آٹھویں صدی عیسوی میں چرچ کی جائیداد قرقی
اور ضبطی کا کام شروع کیا اور اسی وجہ سے ریاست اور پاپائیت کے درمیان لڑائی جھگڑا
شروع ہوا۔‘‘ (صفحہ نمبر 700 ، نیو یارک 1967)
یعنی کلیسا کو اتنا کمزور کیا گیا کہ پادریوں اور مذہبی
لوگوں کا ریاستی امور میں عمل دخل تو دور کی بات غیر مذہبی قانون سازی پر تنقید کی
طاقت کو بھی ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ۔ لیکن سیکولرازم کو فروغ دینے والی
مشنری بھی سیکولرازیشن سے ہی تیار کی جاتی رہی ۔ یعنی ایسے افراد جو معاشرے میں بیٹھ
کر دینی علوم کی بجائے فنون لطیفہ اور سائنسئ علوم سکھنے لگیں۔ اور فطری طور پر وہ
دین بیزار ہو جائیں۔
’’دی آکسفورڈ ڈکشنری آف انگلش‘‘ میں ’’سیکولرازئزیشن‘‘ کی
تعریف کچھ یوں ہے:
یعنی لا دینی
بنانے کے عمل سے مراد ہے کہ آرٹ تعلیم وغیرہ کو لادین یا غیر مقدس بنانے میں کردار
ادا کرنا یا ان کو لادین بنانے سے متعلق راہنمائی فراہم کرنا اس کے علاوہ اخلاقیات
کو بے دین بنیادوں پر استوار کرنا اور دین کو سیکولر اور بے دین شعبوں تک محدود
کرنا ۔
سیکولرازم کو فروغ تب ہی دیا جا سکتا ہے جب سیکولر بنانے کے
لئے کوئی پلان ترتیب ہو ۔ جس طرح حکومتیں ریاستیں چرچ کو کنٹرول کرنے لگی اسی طرح
طلبہ وطالبات کی بڑی تعداد کو مذہبی تعلیم سے دور کیا جانے لگا ۔ جس کا لازمی
نتیجہ ایک سیکولر فرد کی شکل میں یا سیکولر سوسائٹی کی شکل میں سامنے آیا۔
آئندہ تحریروں میں ہم دیکھیں گے کہ مسلم معاشروں میں
سیکولرازم کس طرح پھیلایا جا رہا ہے ۔ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیکولرازم
کو کن کن ناکامیوں کا سامنا ہے ۔
نوٹ:
مقالہ نگار کے ساتھ’’انتخاب اردو‘‘ ٹیم
کا اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ہے۔
سائٹ پر کوئی اشتہار دیا گیا تو نیک
نیتی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، مشتہر کے ساتھ لین دین وغیرہ معاملات کے ذمہ دار
نہیں۔
آپ بھی اپنی تحریروں کو ’’انتخاب
اردو‘‘ کی زینت بنانا چاہیں تو ای میل کریں:
No comments:
Post a Comment