عورت مارچ میں اس بار تو شاید بہت کچھ نیا اور جارحانہ ہو گا
۔۔۔ لال لال کے بعد اب کمانڈوز تیار ہیں ۔۔۔
ترانہ بھی اپنا ۔۔۔ نعرے بھی نئے ۔ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ والا سلوگن ہوا پرانا ۔۔۔
اس بار کچھ نئے کی امید رکھیں۔
ضرور
پڑھیں: معصوم
بچوں سے زیادتی اور تصویر کا اصلی رخ
8
مارچ کو عورت مارچ منعقد کیا جا رہا ہے جس کے لئے لاہور کراچی اور اسلام
آباد میں مخصوص گروہ تیاریوں میں مصروف ہیں ۔ باقاعدہ ٹریننگ سیشنز منعقد کئے جا رہے
ہیں اور پوسٹر ڈیزائنگ کے مقابلے منعقد ہو رہے ہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ
یہ عورت مارچ اور لال لال لہرانے والیاں چند ہی ہوتی ہیں جو کہیں بائی چانس اکھٹی ہو
جاتی ہیں۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ان کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے ۔ یہ سب لمبی
باقاعدہ پلاننگ سے ہوتا ہے اور مہینوں کی اس پلاننگ کے لیے بڑے فنڈز مختص کئے جاتے
ہیں ۔
بات تلخ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دینی طبقہ ابھی بے فکری کی گہری
نیند کے مزے لے رہا ہے جیسے ہی یہ مارچ ہو جائے گا ۔ بھرپور تماشہ ہو گا ۔ الیکٹرانک
میڈیا سوشل میڈیا سمیت ہر جگہ چرچا ہو گا تو پھر دینی جذبات رکھنے والے بہت سے احباب
بیدار ہوں گے ۔ اس پر لمبے لمبے ناصحانہ مضامین لکھے جائیں گے ۔ اگلے دن ویڈیو کلپس
ریکارڈ ہوں گے ۔ پوری کارروائی کے بعد ’’اسلام میں عورت کے حقوق‘‘ کی بحث چھیڑی جائے
گی جسے یہ سب آنٹیاں گھر بیٹھ کر تھکن اتارتے
ہوئے انجوائے کریں گیں ۔ کیونکہ وہ اپنا کام کر چکی ہوں گیں اور بعد ازاں لکیر پٹتے
بھی دیکھیں گیں ۔ کیونکہ ردعمل میں ہونیوالی
بحث میں صرف دفاعی انداز ہی اپنایا جا سکتا ہے۔ جس کا باقاعدہ فائدہ اسی این جی اوز
زدہ ایجنڈے کو ہی ہوتا ہے ۔
چلیں انتظار کریں کہ یہ عورت مارچ کب بڑے شہروں سے نکل کر ہر
جگہ گلی محلوں پہ دستک دے۔
اسے ہو لینے دیں پھر ردعمل کی نصیحت آموز تقاریر اور لمبے لمبے
مضامین نشر کئے جائیں گے۔
المیہ تو یہ ہے کہ بعض حلقوں کی ایماء پر یہاں اسلام مخالف اور
دینی و معاشرتی روایات کے خلاف سب کچھ کرنے کی کھلی اجازت دی جاتی ہے۔ جب پوری کارروائی
ہو جاتی ہے تو پھر ہمدردانہ اور طفل تسلی کے لیے ردعمل کی بھی تھوڑی سی اجازت مل ہی
جاتی ہے ۔
انہیں مکمل آزادی ہے اپنے نعروں میں اشتعال انگیزی کی۔ قانون
حکومت مذہب سمیت ہر طبقے و ضابطے کی دھجیاں اڑانے کی۔ کیونکہ یہ معاشرے کی لاڈلی ہیں۔
صرف انہی کے تو حقوق ہیں۔ یہ جو چاہیں کہیں جسے چاہیں لتاڑیں کوئی انہیں پوچھنے والا
نہیں ہے۔
ضرور
پڑھیں: آٹے
کا بحران اور جھوٹے وزیر مشیر اور ترجمان
گذشتہ روز تنظیم اسلامی نے ایک عام سے پیغام والا بل بورڈ راوالپنڈی
کے چوک میں لگایا جسے فوری ہٹا دیا گیا جبکہ اخبارات نے پیسے لیکر بھی یہ اشتہار چھاپنے
سے انکار کر دیا۔ اشتہار میں قرآن پاک کی ایک آیت بمعہ ترجمہ اور ساتھ یہ تحریر درج
تھی کہ ہمیں اشتہارات میں خواتین کی تصاویر شائع نہیں کرنی چاہیں۔
جی ہاں ارض پاک میں قرآنی آیت والا اشتہار پیسے دیکر اپنے خرچ
پر بھی شائع نہیں کرایا جا سکتا جبکہ دینی معاشرتی روایات کی دھجیاں اڑانے کے لیے عورت
مارچ کی تشہیر مفت میں ہو گی اور تیاریاں سڑکوں پر سرعام جاری ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا۔
پرنٹ میڈیا سوشل میڈیا سب پر بھرپور کوریج ہو گی۔
بس تھوڑا انتظار کریں 8 مارچ کو کھڑکی توڑ نمائش ہو گی۔
نوٹ:
مقالہ نگار کے ساتھ’’انتخاب اردو‘‘ ٹیم
کا اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ہے۔
سائٹ پر کوئی اشتہار دیا گیا تو نیک
نیتی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، مشتہر کے ساتھ لین دین وغیرہ معاملات کے ذمہ دار
نہیں۔
آپ بھی اپنی تحریروں کو ’’انتخاب
اردو‘‘ کی زینت بنانا چاہیں تو ای میل کریں:
No comments:
Post a Comment