تازہ ترین

Post Top Ad

Thursday, October 24, 2019

الف لیلہ ولیلہ اور موجودہ عالمی سیاست



ایک ہزار ایک راتوں تک کہانی کہنے کا فن عربوں نے ایجاد کیا۔ وہ فن جس کی معراج الف لیلیٰ کی داستان ہے۔ کہانی میں سے کہانی نکلتی ہے اور کردار سے کردار جنم لیتے ہیں‘ ایسے کردار جو آج بھی زندہ ہیں اور پوری دنیا کیلئے ضرب المثل اور کہاوتوں میں نظر آتے ہیں۔ الف لیلیٰ کایہ داستانی ادب اس تہذیب کاعکاس ہے جواپنے زمانے کے سب سے متمدّن شہربغدادمیں جلوہ گر تھی‘ عباسیوں کے سنہرے دورکی یادگار۔ الف لیلیٰ کی یہ کہانیاں ایک بادشاہ شہریارکے ایک فیصلے سے جنم لیتی ہیں شہریار کایہ خیال تھاکہ دنیا کی تمام عورتیں بے وفا اور ناقابل اعتبار ہیں۔یوں وہ اپنی شادی کی پہلی رات ہی اپنی بیوی کو قتل کر دیتا‘ یہ سلسلہ تین سال تک چلتا رہتا ہے۔ بادشاہ کا ایک وزیر جو اس کیلئے لڑکیاں ڈھونڈتا ہے تاکہ وہ ان سے شادی کر سکے لیکن ایک دن وہ بے بس ہو جاتا ہے اور اسے اس ظالمانہ کاروائی کےلئے کوئی لڑکی نہیں ملتی۔
اپنی اس پریشانی کا ذکر وہ اپنی بیٹی شہر زار سے کرتا ہے۔ شہرزار اپنے باپ کواس پریشانی سے بچانے کیلئے کہانی سنانے پر رضا مند ہوجاتی ہے اورپھر پہلی رات وہ ایک بیل اور گدھے کی کہانی شروع کرتی ہے اور اس میں سے دوسری کہانی جنم لیتی ہے اور صبح کی اذان ہوجاتی ہے اور اس کی جان بچ جاتی ہے۔ یوں وہ ایک ہزار ایک راتوں تک کہانی سے کہانی نکال کرسناتی رہتی ہے جن میں علی بابا چالیس چور سے لیکر چہار درویش‘ سوتے جاگنے کی کہانی سے لیکر الٰہ دین کے طلمساتی چراغ تک سب کا ذکر آتا ہے۔ کردارجنم لیتے ہیں اور پھر دنیا کے ہرمعاشرے‘ تہذیب وتمدّن تک پھیل جاتے ہیں۔ ان کہانیوں کے کرداروں میں سے ایک کردار سندباد کا بھی ہے۔
ایک غریب لکڑ ہارا جو اپنے اللہ کی مہربانیوں سے بہت بڑا تاجر بن جاتا ہے جس کے جہاز ہروقت سمندر میں سفر میں رہتے ہیں جو اپنے معرکوں اور کارناموں کی وجہ سے پورے بغداد میں مشہور ہے۔ سندبادکے سفر کی کہانیاں دنیا بھر کے ادب کانچوڑ ہیں ۔ دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی زبان ہو جس میں ان کہانیوں کاترجمہ نہ ہوا ہو۔ سندباد کے کردار پر ہالی وڈمیں فلمیں بننے کاآغاز 1940ء میں ہوا جب اس پرپہلی فلم ”بغدادکاچور“ بنی اور پھر اس پرطرح طرح کی کردار نگاریاں کی گئیں۔ کارٹون فلمیں بنیں۔ بچوں کیلئے بے شمار کہانیاں تخلیق کی گئیں‘ اسے ”پوپائی دی سیلر“ سے ملایا گیا۔ جادوئی قالین پر اڑایا گیا‘ اسے ملکوں ملکوں پھرایا گیا‘ لیکن ان تمام فلموں‘ کہانیوں‘ کارٹونوں میں کبھی بھی اس سے اس کا شہر بغداد‘ اس کا مذہب اسلام‘ اس کارسولﷺ اوراس کا خلیفہ ہارون الرشید اس سے نہیں چھینا گیا‘ اسے وضع وقطع میں عرب ہی رہنے دیا گیا اور اسے مسلمان ہی بتایا گیا۔
لیکن گذشتہ کئی سالوں سے ہالی وڈ اور دوسرے مغربی ممالک بچوں کیلئے جوفلمیں بنارہے ہیں‘ ان فلموں میں مسلمانوں سے ان کی شناخت اور پہچان کے ہر حوالے کو چھیننے والوں نے فلموں میں سندباد کو یونان کے شہر سارائیکورس کا رہنے والا بتایا ہے‘ جو وہاں کے دیوی دیوتاؤں کو مانتا ہے اور اسی شہرکےحاکموں اور رئیس گھرانوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے۔ جن لوگوں کی مسلمانوں سے نفرت کا یہ عالم ہو کہ وہ قصے کہانیوں میں‘ خیالی اور ماورائی کرداروں میں جو صدیوں سے لوگوں کے گھروں میں نسل درنسل چلے آرہے ہوں‘ مسلمان کا نام‘ ان کے شہروں کا تذکرہ‘ ان کی بتائی ہوئی حمد اور شکر کا ذکر سننا برداشت نہ کریں، جن کی پوری توانائی اس بات پر خرچ ہو رہی ہو کہ مسلمانوں کے نصابِ تعلیم سے‘ ان کے کھیل کود سے‘ ان کی زندگی کے خوابوں سے وہ تمام ہیرو کھرچ کر پھینک دیں جو انہیں ایک ملت ِاسلامیہ کے رشتے میں پروتے ہیں‘ وہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ علی بابا چالیس چور‘ الٰہ دین یا سندباد اس بغداد کا ذکر کرے جہاں ہر روز ان کے فوجیوں کو خاک چاٹنا پڑی، امریکا اورمغرب کے کسی ہوائی اڈے پر رات کے سناٹے میں خاموشی کے ساتھ ان فوجیوں کے تابوت اتار کر ان کے لواحقین کو اس شرط کے ساتھ حوالے کئے گئےکہ اس کی کوئی تشہیر نہ ہونے پائے۔
وہ کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ لوگ امن وسلامتی کے ضامن دین کی بات کریں جسے وہ پچھلے سو سال کے پروپیگنڈے سے دہشتگرد ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس سب کے باوجود بھی مجھے بالکل کوئی حیرت نہیں ہوتی‘ اس لیے کہ یورپ اور امریکا نے تو ایسا کرنا ہی تھا۔ مجھے حیرت صرف اپنے لوگوں پر ہے جوگنگ ہیں‘ چپ ہیں۔ جو ہماری تاریخ تھی ‘ اس کا نام ونسب بدل دیاگیا۔ غیرت مند قومیں نام ونسب کی گالیاں نہیں سنا کرتیں لیکن کمال ہے ہمارے حکمرانوں کی غیرت نجانے کہاں کھو گئی ہے کہ جو ہمارے ساتھ یہ سلوک کرتا ہے ہم اسی کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اپنی وفاداریوں کااعلان کرتے ہیں اور دنیا بھر کے میڈیا کے سامنے یہ کہتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے کہ امریکا کشمیر میں ثالثی کروائے ۔
ہو سکتا ہے کہ کل کلاں کو تاریخ اسلامی کے ہیروز کے سنہرے واقعات کو ہم ایریزوناکے صحراؤں کی داستان قرار دے دیں جو ہارورڈیونیورسٹی کے کسی پروفیسر کی تخلیق ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ بادشاہ شہریار تو ایک ہزار رات کہانی سنانے پر شہزادی شہر زار کی جان بخش دیتا ہے لیکن ہم دس ہزار رات بھی ان لوگوں کواپنی وفاداری کی کہانی سنائیں، تب بھی ہماری جان نہیں بخشی جارہی۔ غیرت ہے تواس حجلہ عروسی سے بھاگ جاؤ ورنہ صبح تک جلّاد کی تلوار ہو گی اورآپ کا سر۔  لیکن شاید یہ تاریخ کا جبر ہے کہ انسان وقت سے سبق حاصل نہیں کرتا کیونکہ اس میں وقت بہت درکار ہوتا ہے۔ جب کمپنی کا ’’سی ای او‘‘ خود مارکیٹ میں اپنی پراڈکٹ فروخت کرنے کیلئے نکل آئے تواس کامطلب یہ ہے کہ کمپنی کانمائندہ یا سیلزمین نالائق ہے اور کمپنی کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہوتا کہ ایسے نالائق سیلزمین کو فارغ کر دیا جائے۔ امریکی سفارتی تاریخ میں ٹرمپ پہلا صدر ہے جو عالم اسلام کی مارکیٹ میں خود بہ نفسِ نفیس اپنی پراڈکٹ کی مقبولیت کیلئے میدان میں اترآیاہے اور اپنی کمپنی ”امریکا“ اور اپنی خصوصی پراڈکٹ ”مودی‘‘ کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جلسہ میں شرکت کیلئے آن پہنچا۔ مارکیٹ نے ان کی کمپنی اور ان کے سیلزمینوں کے بارے میں اپنی رائے سے ان کو بڑے بہتر طریقے سے سمجھا دیا کہ اب افغانستان میں ”شوگرکوٹڈ“ ری ایکشن ”زہرکاری ایکشن‘‘ انہیں بھی بہرحال برداشت کرناپڑے گا!

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot