تحریر: جناب پروفیسر عبدالعظیم جانباز
جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت
میں توسیع کا معاملہ تو عارضی طور پر حل ہوگیا، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنرل قمر
جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کیوں ناگزیر تھی اور حکومت کے لیے کیوں ضروری
تھا کہ وہ اگلے تین برس کے لیے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ہی فوج کا سربراہ رکھیں ۔ جنرل
باجوہ کی قوم کے لئے بہت سی خدمات ہیں، ٹھیک تین سال پہلے تصویر بہت مختلف تھی آج
جیسا امن تھا نہ ہی سکون، دُنیا پاکستان کو انتہا پسندی کے حوالے سے جانتی اور پہچانتی
تھی جہاں بھی دہشتگردی کا ذکر آتا وطن عزیز سرفہرست ہوتا۔
29 نومبر 2016ء کو جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج
کے سولہویں سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی جیسے جیسے وقت گزرتا گیا دُنیا باجوہ
ڈاکٹرائن کی قائل ہوتی چلی گئی، پہلے آپریشن ضرب عضب کے ثمرات سامنے آئے پھر ردالفساد
نے امن دشمنوں پر قہر ڈھائے۔ بطورِ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے مکمل امن کی
بحالی کو اپنا مشن بنایا، ناقابل تسخیر ملکی دفاع کا بیڑا بھی اٹھایا۔ چیلنج بہت بڑے
تھے لیکن آرمی چیف نے اِنتہائی خندہ پیشانی سے قبول کئے، متاثر کن خدمات سے اپنی الگ
پہچان بنائی، دہشتگردوں کا بیانیہ ناکام بنانے کے لیے مؤثر حکمت ِعملی بھی اپنائی
،دہشت گردی کے حوالے سے آرمی چیف کی ہدایت پر ملک بھر میں دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے
ختمی آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا۔ سپہ سالار سیکیورٹی کی پالیسی کا منفرد پہلو یہ
تھا کہ اُنہوں نے کارروائیوں کے ساتھ ساتھ شدت پسندوں سے مذاکرات بھی کیے، تحریک طالبان
پاکستان جیسے سندھ قومی محاذ، متحدہ قومی موومنٹ، بلوچ علیحدگی پسندوں اور پنجابی طالبان
کے ہتھیار ڈالنے والے عسکریت پسندوں کو جنرل راحیل شریف کے دور میں دی گئی معافی کا
سلسلہ جنرل باجوہ کے دور میں تکمیل کو پہنچا۔ افغانستان سے متصل سرحد پر حفاظتی باڑ
اور سرحدی قلعوں کی تعمیر سے دہشتگردی کا خاتمہ ہوا،ا س کے ساتھ بحالی اور تعمیر نو
کے لئے سابقہ فاٹا اور بلوچستان میں درجنوں ترقیاتی منصوبوں کو بھی مکمل کیا گیا۔
سپہ سالار کا اپنے سپاہیوں میں
گہرا اور دوستانہ اثرو رسوخ ہے گزرے تین برسوں کے دوران وہ مسلسل کنٹرول لائن اور اگلے
مورچوں کے دورے کر کے جوانوں اور دشمن کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے۔ مذہبی اور
قومی تہوار ہو یا کوئی اور اہم موقع آرمی چیف عمومی طور پر جوانوں کے ساتھ اگلے مورچوں
پر ہی گزارتے رہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے تین برس سے فوجی سفارتکاری کا تصور سامنے
آیا جس نے ان کے غیرملکی دوروں، پاکستان آئے ملکی وفود سے ملاقاتوں اور خصوصاً افغان
طالبان اور امریکہ میں مذاکرات میں کردار سمجھنے میں مدد ملی۔ اُنہوں نے سعودی عرب
اور قطر سمیت مختلف ممالک سے تعلقات مزید بہتر بنائے، سعودی عرب اور ایران سمیت مختلف
مسلم ممالک کے درمیان فوجی تعاون پیدا کرنے کے لیے موجود رکاوٹیں دور کرنے کی کوششیں
بھی جاری رکھیں۔ بحالی امن کے حوالے سے سپہ سالار کے ویژن کو ملکی سطح پر تو سراہا
گیا ہی ،اقوام عالم بھی اس کا گرویدہ ہے، امریکہ کی جانب سے دہشتگردی کے خاتمے میں
آرمی چیف کے کردار کو سراہا گیا، پینٹاگون کی جانب سے جنرل قمر جاوید باجوہ کو گارڈ
آف آنر پیش کیا گیا اور 21 توپوں کی سلامی دی گئی ۔پاک فوج کے سربراہ نے جب چین
کا دورہ کیا تو وہاں بھی انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، برطانیہ اور ایران بھی عالمی
امن میں پاکستانی آرمی چیف کے کردار کے معترف ہیں ۔جنرل قمر جاوید باجوہ کا بین الاقوامی
برادری میں تشخص ایک مرد آہن کا رہا، مگر اپنے سپاہیوں میں ان کا تاثر سخت گیر نہیں
تھا، تین سال پہلے جب انہیں بطور آرمی چیف نامزدگی کی اطلاع دینے کے لیے وزیر اعظم
ہاؤس بلایا گیا تو وہاں استقبال کرنے والے جونیئر فوجی و سول افسران سے بے تکلف ہو
کر گلے ملے۔
ملکی سلامتی کے ساتھ ساتھ معاشی
صورتحال بہتر بنانے کے لئے بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کی خدمات تاریخ کا حصہ ہیں، معاشی
واقتصادی حالت کی بہتری کے لیے انہیں قومی ترقیاتی کونسل کا حصہ بنایا گیا۔ جنرل قمر
جاوید باجوہ نے حکومت کے معاشی ماہرین، ملک کی معروف کاروباری شخصیات اور تاجر برادری
کی اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ جہاں امن دشمنوں کے لئے قہر
ثابت ہوئے وہیں ازلی دشمن بھارت کو جارحیت پر جواب کے حوالے سے بھی مرد آہن بن کر
ابھرے۔ مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی پاک بھارت کشیدگی کے دوران
جنرل قمر جاوید باجوہ کے کردار کو بین الاقوامی طور پر سراہا گیا، بالاکوٹ پر بھارتی
جارحیت کا منہ توڑ جواب دے کر انہوں نے انتہائی کشیدہ صورتحال میں فوج کا مورال بلند
کیا۔ مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر احتجاج اور کشمیریوں کی آواز بننے میں
بھی سپہ سالار کا کردار اور عالمی اداروں سے تعلقات مثالی رہے ۔دشمن نے ہمیشہ امن پر
وار کیا لیکن پاکستان نے ہمیشہ دوستی کا پیغام دیا جس کا بڑا ثبوت کرتار پور راہداری
ہے ۔دوستی کا یہ راستہ کھولنے کے لیے بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کا کردار کسی تعارف
کا محتاج نہیں، انہی کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے منصوبے پر کام دس ماہ کے مختصر ترین
مدت میں مکمل ہو،ا آرمی چیف جنرل باجوہ کے انہی اقدامات کو مدنظر رکھ کر حکومت نے
جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کیا۔
No comments:
Post a Comment