تحریر: جناب عبدالرحمن ثاقب سکھر
ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات عوام
کو سہولتیں دینا نہیں ہے بلکہ عوام کی زندگی کو تلخ تر بنانا ہے۔ جس کا مشاہدہ ہم گذشتہ
سولہ ماہ سے کررہے ہیں۔ عوام کی ضروریات زندگی کی ہر چیز کی قیمت میں بےتحاشہ اضافہ
کردیا گیا حتی کہ بجلی کے بلوں میں ایک ماہ میں تین دفعہ اضافہ بھی کیا گیا۔ وزراء،
مشیروں اور ترجمانوں کی فوج ظفر موج اس لیے بھرتی کر رکھی ہے کہ وہ حکمرانوں کے غلطیوں
کو بھی خوبیاں بنا کر پیش کریں۔ اور ہر صورت میں حکمران طبقہ کو صحیح اور سچا ثابت
کریں عوام پر کیا بیت رہی ہے وہ کیا سوچ رہے یا ان کی زندگی کن حالات سے دوچار ہے اس
سے انہیں کوئی غرض نہیں۔ انہیں بس ہر چیز کو سونا ہی ثابت کرنا ہے اگرچہ وہ لوہا بھی
نہ ہو۔ کیا حکمران یا ان کے وزیر, مشیر اور ترجمان دیانت داری سے بتانے کی جرأت کریں
گے کہ ان کے دور حکومت میں وطن عزیز کی عوام پر کتنے اربوں کا مزید ٹیکس لگایا جاچکا
ہے اور مہنگائی کہاں تک جاپہنچی ہے؟ یہ سب میڈیا کے سامنے بیٹھ کر غلط اعداد وشمار
تو بیان کریں گے لیکن حقائق سے کبھی بھی قوم کو آگاہ نہیں کریں گے۔
قوم پر آج پھر احسان کیا گیا ہے
کہ پورے 25 پیسے فی لیٹر پٹرول کی قیمت کم کردی گئی ہے۔ کیا پٹرول
کی قیمتیں بڑھاتے ہوئے بھی اسی طرح سے چند پیسے پیسے کرکے پٹرول کی قیمتیں بڑھائی گئی
تھیں یا اس وقت روپوں کے حساب سے اضافہ کیا جاتا تھا؟
آج قوم عمران نیازی اور ان کی ٹیم
سے سوال کرتی ہے کہ وہ کیلکیولیٹر کہاں ہے؟ جب پٹرول 65 روپے فی لیٹر تھا تو کنٹینر پر کھڑے ہو کر اور حساب
لگا کر قوم کو بتایا جاتا تھا کہ عالمی مارکیٹ میں ایک بیرل پٹرول کی قیمت اتنی ہے
اور ایک بیرل میں اتنے لیٹر اور ایک لیٹر اتنے میں پڑتا ہے اور باقی پیسے حکمرانوں
کی جیب میں جاتے ہیں۔ اب کوئی بتائے کہ عالمی مارکیٹ کے حساب سے ایک لیٹر پٹرول کی
قیمت کتنی بنتی ہے اور باقی پیسے کس کی جیب میں جارہے ہیں؟
کیا وہ کیلکیولیٹر گم ہوگیا ہے
یا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے یا پھر حکمران حساب کرنے
سے قاصر آچکے ہیں اور جان بوجھ کر غریب عوام پر ظلم کررہے ہیں۔
عوام کو سہولت دینے کےلیے حکومت
کے پاس رقم نہیں ہے لیکن اپنے غلط فیصلوں کا دفاع کرنے کےلیے ترجمانوں کی فوج بھرتی
کی ہوئی ہے اس کے اربوں روپئے کے اخراجات کہاں سے پورے کیے جارہے ہیں؟
غیر منتخب شدہ افراد کو بڑی بڑی
پوسٹوں پر متعین کیا گیا ہے حتی کہ بیرون ملک سے لوگ درآمد کرکے قوم پر انہیں مسلط
کیا گیا ہے جن کے اخراجات کا عام لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہے۔
ملک کی عوام کو سہولت دینے کےلیے
حکومتی خزانہ بظاہر خالی ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے لیکن سکھوں اور قادیانیوں کی
سہولت کےلیے ریکارڈ مدت دس ماہ میں اربوں روپئے خرچ کردیے جاتے ہیں۔ عوام کی سہولت
کےلیے حکمرانوں کے پاس کچھ نہیں ہے لیکن ہندووں کے چار سو مندرووں کی تعمیر و مرمت
اور تزیین و آرائش کےلیے اربوں روپئے خرچ کرنے کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے
فریضہ حج بیت اللہ کےلیے حکومت کی طرف سے دی جانے والی سبسڈی ختم کردی جاتی ہے لیکن
قادیانیوں کو قادیان تک جانے کےلیے سبسڈی دے دی جاتی ہے۔ آخر یہ حکومت کس ایجنڈے کی
تکمیل پر کام کررہی ہے۔
عوام مہنگائی سے بلبلا رہے حکومت
عوام کو کوئی سہولت دینے کی بجائے نان ایشوز کی طرف انہیں متوجہ رکھنے کی کوشش کرتی
ہے۔ کوئی بھی حکومتی عہدیدار یہ بتانے کےلیے تیار نہیں ہے کہ کس نے اور کس حکم پر چینی
مافیا کو چینی کی قیمت 50 روپئے کلو سے بڑھا کر 80 روپے کلو کرنے کی اجازت دی۔ اسی طرح سے دیگر اشیاء ضرورت
اور باالخصوص ادویات کی قیمتوں میں دوسو فی صد سے زیادہ اضافہ ہوگیا وہ کونسی مافیا
تھی جس کو حکومت من مانی کرنے سے نہ روک سکی۔
حالیہ پٹرول کی قیمت میں کمی قوم
کے ساتھ سنگین مذاق ہے کیونکہ 25 پیسے کی کمی کا عوام کو کسی بھی صورت میں فائدہ نہ ہوگا
کیونکہ ایک لیٹر پٹرول خریدنے کے بعد کوئی بھی پمپ مالک پچیس پیسے واپس نہیں کرے گا
اور نہ ہی اس طرح کی ریزگاری کسی کے پاس ہے اور نہ ہی کوئی رکھتا ہے بلکہ یہ بھی عوام
کے بجائے پٹرول پمپ مالکان کو ہی فائدہ پہنچانے کی ایک دانستہ کوشش کی گئی ہے۔ لگتا
ہے کہ حکمرانوں نے اپنے ظرف کے مطابق ہی عوام کو سہولت دینے کی کوشش کی ہے۔ عوام اس
کمی پر پریشان ہیں کہ وہ روئیں یا خوشی منائیں۔
No comments:
Post a Comment