تازہ ترین

Post Top Ad

Thursday, October 31, 2019

تیز گام آتشزدگی ... حادثہ یا دھشت گردی


تحریر: جناب ابوسیف اللہ
آج صبح ناشتہ کے دوران خبر نامہ کے لیے ٹی وی آن کیا تو ایک جانکاہ خبر چل رہی تھی۔ جی ہاں! لیاقت پور میں تیز گام میں آتشزدگی کی خبر۔
ابتدائی طور پر جو معلومات ملیں پتہ چلا کہ کہ آگ لگنے کی وجہ سے 20 یا 22 لوگ آگ کی زد میں آکر شہید ہو گئے ہیں۔ لیکن جوں جوں وقت گذرتا گیا حادثہ میں شہداء کی تعداد پڑھتی گئی۔
حادثہ کن وجوہات کی بناء پر پیش آیا‘ نیوز چینلز پر بتائی گئی معلومات کے مطابق صبح 6 بجے کے قریب کسی مسافر نے ناشتہ تیار کرنے کے لیے گیس سلنڈر جلایا تھا جو پھٹ گیا جس کی وجہ سے آگ لگ گئی۔
یہ خبر بھی چل رہی تھی کہ اس بوگی میں مسافر رائے ونڈ اجتماع کے لیے محو سفر تھے۔ انہی میں سے کسی نے سلنڈر جلایا تھا۔
اسی دوران میں جناب وزیر ریلوے صاحب کے بیانات بھی نیوز چینل کے ٹیکرز کا حصہ بننا شروع ہو گئے جس میں جناب وزیر موصوف آگ اتنی زیادہ کیوں پھیلی، کیا تا دیر اس کی روک تھام کے لیے کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی گئی یا کہ آگ لگتے ہی آنا فانا اتنی زیادہ پھیلی پر تحقیقات کی بجائے کمیٹی اس کام کے لیے بٹھائی ہے کہ پتہ کرے کہ سلنڈر لے کر لوگ کس اسٹیشن سے ٹرین میں بیٹھے تھے۔
ان ٹیکرز میں سے وزیر وصوفی کی طرف سے جاری شدہ بیان میں سے ایک ٹیکر یہ بھی چل رہا تھا کہ ’’قصور ریلوے کا نہیں مسافروں کا ہے۔‘‘
تازہ معلومات کے مطابق تقریبا 9 بجے کے قریب آگ پر قابو پایا جا سکا۔ اور اس وقت تک ایک چینل کے مطابق 46 شہداء کی لاشیں نکالی جا چکی تھیں۔
ذرائع سے معلوم ہوا کہ عملہ کی جان توڑ کوشش کے باوجود آگ پھیلتی رہی، ایک طرف سے بجھا کر دوسری طرف جاتے تو پہلی طرف دوبارہ سے آگ بھڑک اٹھتی تھی۔ بارہا کاوشوں کے بعد بالآخر صبح 6 بجے کی لگی آگ کو عملہ 9 بجے کے قریب قابو پانے میں کامیاب ہو پایا۔
مذکور بالا مختلف نیوز چینلز کی طرف سے سنائی گئی خبریں۔ ان کے ما بین کچھ نکات ایسے ہیں جو بہت ہی زیادہ غور کے متقاضی ہیں۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ اس آگ کے پیچھے کیا امور کارِ فرما ہو سکتے ہیں۔
سب سے پہلے سوال تو یہ ہے کہ کیا چلتی ٹرین میں کسی مسافر نے پہلی مرتبہ سلنڈر جلایا تھا؟!
میں نے خود بھی بہارہا ٹرین میں سفر کیا ہے اور بہت سے احباب نے کیا ہو گا۔ لمبے سفر پر نکلے مسافر خصوصی لوئر کلاس میں سفر کرنے والے لوگ ابتدائی طور پر اشیائے خورد گھروں سے پکا کر ساتھ رکھتے ہیں جوآئندہ ایک وقت کے لیے ان کو کافی ہوتا ہے۔ لیکن مزید تاخیر ہونے کی صورت میں مستقل ٹرین میں سفر کرنے والے احباب اپنے ساتھ اس طرح کی چھوٹی موٹی اشیاء اپنے ساتھ رکھتے ہیں تا کہ کھانے پینے کا چھوٹا موٹا بندوبست کیا جا سکے۔ اور ایسا لمبے روٹ کی ہر ٹرین میں ہوتا ہے۔
اب یہاں صورتحال یہ ہوئی گئی کہ ناگہانی ایک سلنڈر پھٹ جاتا ہے۔ ایک چھوٹا سا دو سے تین کلو کا سلنڈر اگر گیس سے فل بھرا ہوا بھی ہو تو پھٹنے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ کتنی دور تک نقصانات کے اثرات پہنچا سکتا ہے؟ اس کی زد میں ڈائریکٹ آنے والوں کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن اس سے پھیلی آگ پر فوری قابو پایا جا سکتا ہے۔ ایسی کسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے جن دنوں میں سفر کیا کرتا تھا ان دنوں ٹرین کی بوگیوں میں جا بجا آگ بجھانے کے گیس سلنڈرز دیکھنے کو ملتے تھے۔ ایک سے دو گیس سلنڈرز کی مدد سے بآسانی اس طرح کی آگ پر قابو پایاجا سکتا ہے۔
کیا جب گیس سلنڈر پھٹا تو اس سے دس دس فٹ حدود سے باہر کوئی بھی ایسا مسافر نہ تھا جو اتنی ہمت ہی کر لیتا کہ ٹرین کی بوگی میں لگے آگ بجھانے والے گیس سلنڈرز کی مدد سے آگ بجھانے کی کوشش کرتا؟ ... یا پھر جس طرح ہسپتالوں میں سبسڈیاں ختم کر کے مفت فراہم کی جانے والی ادویات کی سہولت کو ختم کر دیا گیا ہے بچت سکیم کے تحت اسی طرح اس بچت سکیم کے تحت ٹرینوں میں لگے سلنڈرز کو اضافی بوجھ گردانتے ہوئے ان کو بھی کھڈے لائن تو نہیں لگا دیا گیا  جس کی عدم دستیابی کی وجہ سے کوئی بھی مسافر چھوٹی سی لگی آگ کو قابو نہ کر سکا۔
چلیں مسافروں نے بزدلی دکھائی‘ ان کی ہمت نہ پڑی کہ آگ کے قریب پھٹکیں۔  کیا آگ اتنی دیر تک لگی رہی ریلوے حکام نے اس کے لیے کوئی چارہ جوئی نہ کی کہ وہ آگ پر قابو ہی پا لیں؟ صبح 6 بجے سے لے کر 9 بجے تک 3 گھنٹے تھوڑا وقفہ نہیں ہوتا۔
دوسری طرف یہ خبر بھی سننے کو ملی کہ آگ ایک بار بجھنے کے بعد دوبارہ سے بھڑک اٹھتی تھی۔ وجہ کیا ہو سکتی ہے؟! کیا اس آگ کو اس طرح سے بھڑکانے میں کوئی ہاتھ کارِ فرما تھا؟ کیا ان تینوں بوگیوں میں کوئی کیمیکل یا کوئی مخصوص بھاری گیس پہلے سے پھیلائی گئی تھی جس نے آنا فانا میں آگ پکڑ لی۔ نہ اس کو بجھانے کا وقت ملا اور اگر بجھانے والوں نے بجھانے کی کوشش کی تو وہ دوبارہ بھڑک اٹھتی تھی۔
یہاں بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ اور ان تمام سوالیہ نشانوں کو نظر انداز کر کے وزیر موصوف فرما رہے ہیں کہ
’’قصور ریلوے کا نہیں مسافروں کا ہے۔‘‘
  

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot