تازہ ترین

Post Top Ad

Saturday, October 26, 2019

حکمرانوں کی ترجیح کشمیر نہیں‘ کرتار پور راہداری ہے


تحریر: عبدالرحمن ثاقب سکھر
کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے یہ الفاظ بانی پاکستان محمد علی جناح کے ہیں اور ہر سیاسی لیڈر یہ الفاظ کہتا ہے۔ کوئی بھی عقل مند اور ذی شعور اپنی شہ رگ کو دشمن کے ہاتھ یا قبضہ میں نہیں دیتا لیکن آج بہتر سال گذر چکے ہیں اور ہم اپنی شہ رگ دشمن سے آزاد نہیں کرواسکے۔
کشمیر ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیونکہ ہمارے دریاؤں کا پانی کشمیر سے آتا ہے۔ اگر کشمیر پر ہمارے ازلی دشمن بھارت کا قبضہ رہتا ہے تو وہ اپنی چانکیہ چال سے ہمارے پانی کو کو بالکل بند کردے گا جس پر وہ کافی حد تک کامیاب ہوچکا ہے اور ہم صرف باتوں تک ہی محدود ہیں۔
ہمارے موجودہ حکمرانوں کی ترجیحات میں کشمیر کی آزادی تو بالکل ہی نہیں بلکہ یہ عالمی ایجنڈے کے تحت ملک کو نجانے کس سمت میں دھکیل رہے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم مودی اور اس کی جماعت کے ایجنڈے میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی اہمیت کو ختم کرنا سرفہرست شامل تھا لیکن اس کے باوجود عمران نیازی اس کی جیت کےلیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے رہے اور یہ دعویٰ بھی کرتے رہے کہ مودی سرکار کا جیتنا ہی ہمارے فائدہ میں ہے۔
مودی نے کشمیر پر ہندووانہ وار کرتے ہوئے 370-A ختم کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور کشمیر پر کرفیو نافذ کرکے کشمیریوں پر ایک عذاب مسلسل مسلط کردیا ہے جو تقریبا تین ماہ ہونے کو ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے حکمران مطمئن تھے ہیں اور رہیں گے کیونکہ کشمیر اور مظلوم کشمیریوں کی آزادی تو ان کا مطمع نظر تھا ہی نہیں کبھی۔
یہ تو وہاں کی بہن بیٹیاں اور مائیں پاکستانیوں کا راہ تکتی رہتی ہیں اور پاکستان سے محبت کرتے ہوئے پاکستان زندباد کے نعرے لگاتی رہتی ہیں اور کشمیری اپنے شہداء کو سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر دفن کرتے رہتے ہیں۔ لیکن افسوس! ہم نے ان کی مدد کےلیے جانا تھا نہ گئے۔ ہم نے تو کرتار پور راہداری پر سیاست کرنی تھی جو کر رہے ہیں۔
ہم نے چونکہ پہلے سے طے کر رکھا تھا اسی لیے ہم نے سلامتی کونسل میں ممبر بننے کے لیے بھارت کو ووٹ دیا۔ ہمارے وزراء اپنے بیانات سے بھارت کو فتح کر رہے تھے لیکن ہم تو مودی جی سرکار کو فضائی راستہ دےکر ان کے خرچے بچا رہے تھے۔ فضائی راستے تو چھوڑ بھارتی ٹرکوں کو افغانستان کےلیے اپنے روڈ اور ہائی ویز بنا کسی رائلٹی اور ٹیکس کے دیئے۔ جو سراسر کشمیریوں کے خون سے نہ صرف غداری کی بلکہ ان کی پشت میں خنجر بھی گھونپنے کے مترادف تھا۔
چونکہ ہماری حکمت عملی پہلے سے طے تھی کہ ہم کو کشمیر نہیں چاہیے‘ بس لوگوں کو بدھو بنانے کے لیے ہم نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھر پور جارحانہ تقریر کی لیکن جو کرنے کا کام تھا قرارداد مذمت جمع کروانے کا وہ ہم نے نہیں کیا۔ کیونکہ ہمارا لائحہ عمل پہلے سے طے شدہ تھا۔
تین ماہ ہونے کو ہیں کشمیری کس عذاب میں زندگی گذار رہے ہیں ہمارے ارباب اختیار واقتدار کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ایوان اقتدار میں فاحشائیں چکراتی پھر رہی ہیں اور اپنے سوشل میڈیا چینلز کے لیے مقتدر حضرات کی جگہ کو استعمال کر کے ویڈیوز بنا کر وائرل کر رہی ہیں۔ جہاں بیٹھ کر اجلاس ہونا چاہیے‘ ملک کے مظلوموں کے لیے انصاف‘بے روزگاروں کے لیے روزگار کے ذرائع کا اعلان‘ غریبوں کو سہارا مہیا کرنا چاہیے تھا وہاں پر یہ کام ہو رہا ہے۔ ہمیں کسی چیز کی فکر ہی نہیں۔
اگر فکر ہے تو سکھوں اور قادیانیوں کو سہولتیں فراہم کرنے کی ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی ہے۔ اِدھر سے کرتار پور راہداری کھولنے کی بات ہوتی ہے تو ادھر سے LOC پر انعام میں مارٹر گولوں سے پاکستانی ماؤں کے سجیلے جوان شہید کر دیئے جاتے ہیں۔ اِدھر جلد از جلد کرتارپور راہداری کھول کر ایسے لوگوں کو سہولت فراہم کی جا رہی ہے جن میں سے ایک طبقہ نے تقسیم پاکستان کے وقت سازش کرتے ہوئے پنجاب‘اور سندھ سے ملحقہ مسلم اکثریت کے بہت سے اضلاع کو پاکستان سے ملنے نہ دیا اور دوسرا طبقہ وہ ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں کا جی بھر کر خون بہایا۔
ہمارے حکمرانوں کی ترجیح کشمیر نہیں بلکہ کرتارپور ہے اور اسی لیے کرتارپور راہداری کا افتتاح کرنے کی جلدی پڑی تھی۔ اسی بات کو دیکھتے ہوئے جن ممالک کا کشمیر ایشو پر پاکستان کے حق میں مستقل ساتھ تھا انہوں نے بھی حکومت کی کشمیر میں عدم دلچسپی پر قدم پیچھے ہٹا لیا اور پاکستان کی اس مسئلہ پر تائید ختم کر دی۔
اگر ہمارے حکمرانوں کو کشمیر اور اہل کشمیر کی فکر نہ ہوتی تو بھارت کا ہر سطح پر بائیکاٹ کرتے اور اپنی زمینی و فضائی حدود بھارت کےلیے ممنوع قرار دیتے اور اگر پھر بھی باز نہ آتا تو غزوۂ ہند کا اعلان کردیتے تو دنیا دیکھتی کہ ہندو بنیا کس طرح سے اپنی دھوتی سنبھالتے ہوئے کشمیر سے بھاگتا اور کشمیریوں کو آزادی مل جاتی لیکن اس کے لیے جرأت اور غیرت مطلوب ہوتی ہے جس سے ہمارے حکمران عاری اور خالی ہیں۔
یہ بات اہل اسلام اور قوم و ملت کو ذہن میں رکھ لینی چاہیے کہ کشمیر جہاد کے ذریعہ سے ہی آزاد ہوگا۔ ان شاءاللہ

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot