تازہ ترین

Post Top Ad

Saturday, October 26, 2019

میاں صاحب کی بیماری، حکومتی پراپیگنڈا ... چل کیا رھا ھے؟!

 
تحریر: جناب رعایت اللہ فاروقی
سینئر اخبار نویس اور میرے یار غار سیف اللہ خالد نواز مخالفین میں سے ہیں۔ مگر جتنے وہ نواز مخالف ہیں اتنے ہی عمران مخالف بھی ہیں۔ ہم جس غار کے یار ہیں وہاں ہمارے سوا صرف خلائی مخلوق پائی جاتی ہے اور یہ غار سیکیورٹی ایشوز کی کوریج کے سبب ہماری پیشہ ورانہ ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خطے کے دفاعی امور کے حوالے سے ہم اپنی قومی پالیسی کے ہمنوا رہتے ہیں جبکہ ملک کی داخلی سیاست کے حوالے سے ہم ان غار والوں سے الگ سوچ رکھتے ہیں۔ کل رات فون پر گپ شپ کے دوران میں نے سیف سے پوچھا: ’’یار ! نواز شریف کی بیماری کے حوالے سے تمہیں کیا لگتا ہے، کیا چل رہا ہے ؟‘‘
سیف نے کہا: ’’یار ! سچ پوچھیں تو میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میاں صاحب بیمار تو تھے مگر انہیں خطرہ کوئی لاحق نہ تھا۔ ارباب اختیار نے سرکاری میڈیکل رپورٹس میں مبالغہ آمیزی سے کام لے کر ایک افراتفری پیدا کرتے ہوئے میاں صاحب کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ میاں جی آپ بس مرنے والے ہیں۔ جلدی سے برطانیہ کے کسی ہسپتال پہنچئے ورنہ آپ کے وہاں پہنچنے سے قبل فرشتہ اجل آپ تک پہنچنے ہی والا ہے اور میاں ان کے اس چکر میں آئے نہیں۔ اگر وہ موت کے خوف میں مبتلا ہوکر جہاز پر چڑھ جاتے اور برطانیہ پہنچ جاتے تو وہاں کی میڈیکل رپورٹس تو مختلف ہوتیں۔ یوں وہاں سے ’’ذرائع‘‘ کی مدد سے یہ بریکنگ نیوز چلا دی جاتی کہ ’’میاں ٹھیک ٹھاک ہے، وہ تو ڈیل کرکے نکل گیا۔‘‘
ادھر میاں صاحب جہاز پر چڑھنے کی بجائے عدالت پہنچ گئے اور وہ اُس طبی بنیاد پر ضمانت مانگ رہے ہیں جو حکومت کا دعویٰ ہے۔ اب حکومت عدالت میں یہ تو کہہ نہیں سکتی کہ میاں ٹھیک ٹھاک ہے اسے ضمانت نہ دی جائے۔ کیونکہ افراتفری تو میاں یا نون لیگ نے نہیں بلکہ خود حکومت نے ’’جان کا خطرہ‘‘  کہہ کر پیدا کی ہے۔ ضمانت ہوجائے گی مگر یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ میاں صاحب باہر چلے بھی جائیں گے۔
 لیکن فرض کیجئے چلے بھی گئے تو طبی بنیاد پر تو پہلے بھی چند ہفتوں کے لئے باہر گیا ہے۔ لہٰذا  کوئی نئی اور حیران کن بات نہ ہوگی۔ اگر میاں باہر گیا تو مجھے لگتا ہے کہ چند ہفتوں میں واپس لوٹ کر ایک بار پھر ارباب اختیار کے لئے درد سر بن جائے گا۔ ایک بار پھر یہ تاثر قائم ہوجائے گا کہ میاں جیل سے ڈرتا نہیں۔ وہ تیسری بار بیرون ملک سے جیل چلا آیا۔
مٹی انہی کی پلید ہونی ہے جن کی اقامہ پر سزا کے بعد سے پلید ہوتی آرہی ہے۔‘‘

میں نے پوچھا: ’’اس سارے تماشے کا ممکنہ مقصد کیا ہوسکتا ہے ؟‘‘
سیف: ’’یار ! مقصد تو ان کا خاک میں مل ہی چکا۔ اگر میاں افراتفری میں گھبرا کر جہاز پر چڑھ جاتا اور راتوں رات برطانیہ پہنچ جاتا تو فضل الرحمن کا آزادی مارچ تو فارغ ہوجاتا۔ کیونکہ سوال ہر طرف یہ زیر بحث آجاتا کہ مدعی تو ڈیل کر گیا، گواہ فضل الرحمن کی پھرتی اب کس کام کی ؟ مجھے نہیں لگتا کہ میاں آزادی مارچ سے قبل باہر جائے گا، وہ اس مارچ کو کسی صورت نقصان نہیں پہنچنے دے گا۔ امکان یہ ہے کہ وہ ارباب اختیار کی اس چال کا بہترین سیاسی استعمال کرکے اسے ان کی مہلک غلطی بنا دے گا۔‘‘

سیف کا یہ تجزیہ میرے تو دل کو لگتا ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے ؟

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot