تازہ ترین

Post Top Ad

Friday, November 1, 2019

محبت رسولﷺ اورہمارا کردار


تحریر: جناب راشد علی سدیس
فخرموجودات سالار انبیاء پیغمبر امن ﷺ کے ساتھ ہمارا تعلق ایمان ،اطاعت اوراتباع کے بعد چوتھی بنیادی شرط آپ کے ساتھ ہماری محبت ہے دین اسلام میں وہ ایمان یا وہ اطاعت قابل قبول نہیں ہے جس کی بنیاد محبت پر نہ ہو ایسی اطاعت جس کی جڑوں میں محبت رسول کا جذبہ موجود نہ ہو اسے بادی النظر میں نفاق سے تعبیر کیا جاتا ہے ایسی اطاعت کو محض رسمی یا ریا پر مبنی اطاعت سمجھا جاتا ہے اللہ تعالٰی کو اپنے رسول سے ایسی محبت مطلوب ہے جس میں نفاق اوردکھلاوے کا شائبہ تک نہ ہو بلکہ محبت دنیا مافیہا ہی نہیں بلکہ اپنی جان سے بھی زیادہ رسول عربی خاتم النبینﷺ سے ہو، ارشادنبوی ﷺ ہے کہ
’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کے بیٹے اور دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے:
’’کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے خاندان اور مال جو تم نے کمایا ہے اور تجارت جس کے گر جانے کا تمہیں اندیشہ ہے اور مکانات جو تمہیں پسند ہیں، اگر یہ ساری چیزیں تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر کر دے۔‘‘
سیدنا عمربن خطاب﷜ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محوگفتگو ہیں تو سیدنا عمر﷜ عرض کرتے ہیں‘ اللہ کے رسول! مجھے اپنی جان کے علاوہ آپ سے ساری کائنات سے بڑھ کر محبت ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تمہارا ایمان مکمل نہیں ہے۔‘‘ سیدنا عمر﷜ عرض کرتے ہیں: مجھے کل کائنات اوراپنی جان سے بھی زیادہ آپ سے محبت ہے۔ یہ سن کرارشاد فرمایا: ’’ عمر! ا ب تمہارا ایمان مکمل ہوا ہے۔‘‘
محبت رسولﷺ کے سامنے ہر چیز کی محبت پست اور آقا u کی محبت سب سے بلندہے، حب رسولﷺ کا تقاضا تو یہی ہے کہ اگر اس سے خود اس کا اپنا نفس اس مسلک کی مخالفت میں مزاحم ہوتا ہے تو وہ اس کی مخالفت کرتاہے، اگر دوسرے اس سے مزاحم ہوتے ہیں تو ان کو بھی خاطر میں نہیں لاتا، یہاں تک کہ اس کے بیوی بچوں اور اعزا و اقارب کے مطالبات بھی اگر اس کے اس منہج کے مطالبات سے کسی مرحلہ پر ٹکراتے ہیں تو وہ حب رسولﷺ میں وہ تمام مطالبات ٹھکرا دیتاہے جو اس کی محبت میں حائل ہوتے ہیں کیونکہ حب رسولﷺ صرف حروف اورجملوں کا مجموعہ نہیں ہے اورنہ ہی اس کا تعلق جذبات کے ساتھ ہے اس کا تعلق مابعد ایمان اطاعت رسولﷺ سے ہے۔ جیساکہ ارشاد نبویﷺ ہے کہ
’’جس نے میری سنت سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔‘‘
یعنی ایمان کے بعد عمل محبت کی پہلی شرط ہے اگر محبت بلا عمل ہو اوریہ الفاظ تک محدود ہو تو پھر اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ ایسا ایمان اللہ تعالٰی کے ہاں مقبول نہیں ہے۔ ارشاد نبویﷺ ہے:
’’میری تمام امت جنت میں جائے گی مگر جو جنت میں جانے سے انکار کرے۔‘‘ حضرات صحابہ کرام] نے عرض کیا اللہ کے رسول! جنت میں جانے سے بھلا کون انکار کرسکتاہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں جائے گا جس نے میری نافرمانی کی گویا اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا ۔‘‘
سطوربالا سے یہ بات اظہرمن الشمس واضح ہوگئی ہے کہ نبیﷺ کے ساتھ ہمارا ایمانی تعلق اس وقت تک استوار نہیں ہو سکتا جب تک اس ایمان کی بنیاد، اطاعت، اتباع اور محبت پر نہ ہو۔  وہیں مختلف اشارات سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اطاعت بلا محبت کے نفاق، اور محبت بلا اطاعت و اتباع کے بدعت ہے یہ بات کہ اطاعت بلا محبت کے نفاق ہے۔
سطوربالا میں اس کی وضاحت ہوچکی ہے حوالی مدینہ کے بہت سے بدو اسلام کی اسلام کی حقانیت کو جانتے ہوئے جوق در جوق اسلام کی وسیع نعمتوں سے مالا مال ہونے کے لیے اسلامی جھنڈے کے سایہ تلے آنا شروع ہو گئے۔ لیکن ان لوگوں کے ایمان میں ابھی وہ مقام ودرجہ نہ تھا جو سابقین الاولین کے ایمان میں تھا۔ تو جب یہ لوگ بیعت کرتے اور اپنے ایمان کو بیان کرتے جس کی اصلی روح اخلاص وتقویٰ ابھی ان میں سرایت نہ ہوا تھا تواللہ تعالٰی نے ان کی رہنمائی کے لیے فرمایا:
’’اور یہ اعرابی لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ان سے کہہ دو کہ ابھی تم ایمان کے درجہ کو نہیں پہنچے البتہ تم یہ کہو کہ ہم نے اطاعت کر لی ابھی ایمان تمہارے دلوں کے اندر داخل نہیں ہوا ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے محبت رسولﷺ کی حقیقت کو مزید احسن پیرائے میں بیان کیا ہے:
’’کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالٰی سے محبت کے دعویدار ہو تو پھر میری اطاعت کرو اللہ تعالٰی تم سے محبت کرے گااورتمہیں بخش دے گا، تمہارے گناہ معاف کردے گا۔‘‘
اطاعت رسولﷺ سے محبت،بخشش اور گناہوں کی معافی کو مشروط کردیا گیا ہے۔ بھلے ببانگ دھل محبت کا دعویٰ، لمبی لمبی تقاریر، وضاحتیں، لچھے دار مست والست اشعار صوفیانہ رنگ، راہبانہ ڈھنگ، عالمانہ بودوباش کیوں نہ اختیار کرلی جائے اگر زندگی کے شب وروز میں اطاعت مصطفیﷺ کا رنگ موجود نہیں تو ان کی یہ محبت بکلی بے معنی ہے اور اگر انہوں نے نبیﷺ کے ساتھ محبت کرنے کے کچھ ایسے طریقے بھی ایجاد کر لیے ہیں جو صریحاً آپﷺ کی سنت کے خلاف ہیں تو یہ اسی طرح کی بدعت ہے جس طرح کی بدعت نصاری نے سیدنا عیسٰی﷤ کی محبت میں کی تھی کہ ان کو پیغمبر کی بجائے خدا سمجھ لیا تھا۔ حضرات صحابہ کرام] نے جس طرح خاتم النبینﷺ سے محبت فرمائی اسی انداز میں محبت کی جائے گی تو ہی حقیقی معنوں میں ایمانی لذت وسرور حاصل ہوگا۔ حضرات صحابہ کرام] اپنی جانیں قربان کردیتے مگر فخرموجوداتﷺ کے تلووں میں ایک کانٹے کا چبھنا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔ اپنے جسم تیروں سے چھلنی کروالیتے مگر آپﷺ کا ایک بال بھی بیکا نہ ہونے دیتے مائیں اپنے بیٹے، شوہر، باپ اوربھائی سب کچھ قربان کرکے محبوب خداﷺ کی سلامتی کی آرزوئیں رکھتی تھیں بقول شاعر:
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot