تحریر: جناب ادریس آزاد
میری بیٹی اپنی
پریکٹکل کی کاپی میں ’’ہائیڈروجن کی تیاری‘‘ پر ڈرائنگ بنا کر میرے پاس لائی اور
بولی: ’’ابوجی! دیکھیے تو! میں نے کیسی
ڈرائنگ بنائی ہے؟‘‘ میں نے کاپی تھامی، اُس کی ڈرائنگ دیکھی۔ اچھی تھی۔ لیکن میں اُسے کوئی داد دینے کی بجائے کسی گہری
سوچ میں کھو گیا۔ وہ میرے پاس کھڑی کچھ
دیر انتظار کرتی رہی اور پھر بول پڑی: ’’ابوجی! کیا میں نے اچھی نہیں بنائی؟‘‘ میں
چونکا۔ میں نے کہا: ’’نہیں بیٹا! بہت اچھی بنائی ہے۔‘‘ وہ میرے لہجے کی اُداسی کو
بھانپتے ہوئے پوچھنے لگی: ’’کیا بات ہے ابوجی! آپ پریکٹکل کی کاپی دیکھ کر اُداس
کیوں ہوگئے ہیں؟‘‘ میں نے کہا:
بیٹا! ایسی ہی
پریکٹکل کی کاپی میں نے بھی بنائی تھی۔ میں اب پچاس سال کا ہوچکاہوں۔ آج بھی
ہمارے بچے سائنسی تجربات، کاغذ پر ڈرائنگ کرکے کرتے ہیں۔ یہ جو تم نے کاپی بنائی ہے۔ اس سے تمہیں ہائیڈروجن کی تیاری کا کتنا کچھ پتہ
چلا ہوگا؟ کیا یہ ڈرائنگ کا مضمون تھا جس
کی تم نے کاپی بنائی؟ یا کیمسٹری تھی؟ بیٹا! تم نے فزکس اور بیالوجی کے تمام
تجربات کو بھی ڈرا کرنا ہوگا۔ کچی پنسل سے ۔ میٹرک لیول کا طالب علم ہو اور سائنس
کے تین بڑے مضمون ہوں جن کی تکمیل خود پاکستان کے تعلیمی قوانین کی رُو سے اس وقت
تک ممکن نہیں جب تک ان مضامین کے تمام تجربات لیبارٹری میں ہرطالب علم بنفس ِ نفیس
پرفارم نہ کرے۔ بورڈ کے قواعد کے مطابق اُس بچے کو میٹرک کی سند نہیں ملتی جسے
لیبارٹری میں تجربات کرنے کا موقع نہ ملا ہو لیکن بیٹا! یہ قواعد بھی فقط کاغذوں
تک محدود رہتے ہیں۔اور ہم ہیں کہ کچی پنسل سے کاغذ پر ہی تمام تجربات کیے چلے
جارہے ہیں، کیے چلے جارہے ہیں۔ پریکٹکل کی کاپیاں بنانے سے بچے کی ڈرائنگ تو ضرور
بہتر ہوتی ہے لیکن کیا فزکس، کیمسٹری اوربیالوجی کے تجربات میں بھی کوئی مدد ملتی
ہے؟ نہیں نا؟ ۔۔۔ کیونکہ کچی پنسل اور کاغذ سے تجربات تو نہیں ہوسکتے بس صرف
ڈرائنگ ہی ہوسکتی ہے۔ اس سے بچوں کی آرٹ، پیٹنگ، سکیچنگ، کیلی گرافی وغیرہ کی
صلاحیتیں نکھریں گی نا؟ اس عمل سے وہ بڑے آرٹسٹ بن سکتے ہیں سائنسدان نہیں۔
تم اگر بیالوجی
کی پریکٹکل کی کاپی میں مینڈک کے نظام ِ انہضام (ڈائجسٹو سسٹم) کی تصویر بناؤگی تو
تمہیں مینڈک کے نظام ِ انہضام کا پتہ کیسے چلے گا؟ اور اگر فرض کرو! دوران ِ
ڈرائنگ تمہاری توجہ سبق کی طرف بھی رہے تو زیادہ سے زیادہ تمہیں ایک ڈرائنگ کے
ذریعے محض خیالی طور پر چند باتوں کی دہرائی ہوجائیگی کہ مینڈک کا ڈائجسٹو سسٹم
کیاہے۔ تم خود حقیقی طور پر تو کبھی بھی واقف نہ ہوسکوگی کہ ڈائجسٹو سسٹم کسے کہتے
ہیں۔ یہ تو بالکل ویساہے کہ،
گھر کی بنیاد زمیں پر جو اُٹھائی نہ گئی
میں نے کاغذ پہ بنا ڈالے محلّات اپنے
میں نے کاغذ پہ بنا ڈالے محلّات اپنے
قاسم شاہ
میں نے اتنی
باتیں کیں تو میری بیٹی جو حیرت سے میری باتیں سن رہی تھی اور ساتھ ساتھ سر بھی
ہلا رہی تھی کہنے لگی،’’ابوجی! ہمارے سکول میں لیبارٹری تو ہے لیکن ہمیں تجربات
کون کروائے؟ میں نے کہا، ’’کیوں؟‘‘ کیا تمہاری سائنس ٹیچرز کم تعلیم یافتہ ہیں۔ تم
خود ہی تو بتارہی تھیں کہ تہمارے سکول کی ٹیچرز یا تو پی ایچ ڈی ہیں یا ایم فل،
نہیں تو کم ازکم ایم ایس سی ضرور ہیں۔ اگر وہ اتنی پڑھی لکھی ہیں تو پھر وہ کیوں
نہیں کرواسکتیں؟ میری بیٹی خاموش ہوگئی۔
حقیقت تو یہ ہے
کہ اساتذہ خود جب عملی تجربات کے بغیر اعلیٰ ڈگریاں لے کر آئے ہوں تو پھر وہ اپنے
طلبہ کو عملی تجربات کیونکر کروا سکتے ہیں؟ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ ایسی
ہی ایک کاپی میں نے بھی اپنی میٹرک کے زمانہ میں بنائی تھی۔ میری عمر کے اساتذہ
بھی تو میری طرح اور میرے جیسے ہونگے۔ پھر مجھے یاد ہے جب میں خود ایک پرائیویٹ
سکول میں سائنس ٹیچر تھا تو مجھے جنون ہوا کہ بچوں کو پریکٹکل کروائے جائیں۔ میں
نے سکول کے پرنسپل سے بحثیں کرکر کے لیبارٹری بنوائی۔ خود لاہور گیا۔ گنپت روڈ سے
لیبارٹری کے لیے سامان خریدا۔ سکول میں ایک چھوٹی سی لیب بنوائی۔ کئی دن ہم سب،
یعنی طلبہ اور مَیں لگے رہے۔ اور پھر وہ دن آگیا جب ہمیں پہلا تجربہ کرناتھا۔ میں
نے تھیوڈور کلوزا کی طرح ایک عملی تجربہ کو فقط کتاب میں بار بار پڑھا اور پھر چل
پڑا اسے پرفارم کرنے۔ اگلے دن میں نائنتھ اور ٹینتھ کے طلبہ کے درمیان کھڑا
کیمسٹری کا کوئی پریکٹکل کررہا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ زرد فاسفورس کو کھلی
ہوا میں لایا جائے تو وہ فوراً جلنے لگ جاتی ہے۔ درمیان میں بڑا سا لکڑی کا ٹیبل
تھا اور ہم سب ٹیبل کے چاروں طرف بغیر کسی حفاظتی انتظام کے کھڑے تھے۔ میں نے شیشی
میں سے تھوڑی سی زرد فارسفورس نکالی اور ٹیبل پر یونہی رکھ دی۔ جبکہ خود میں کسی
اور کام میں لگ گیا۔ ابھی چندلمحے ہی گزرے تھے کہ لڑکوں نے مجھے متوجہ کیا، ’’اوہ
ٹیچر! یہ دیکھیں، میز کو آگ لگ گئی۔ میز پر ایک نیلا سا شعلہ جل رہا تھا جبکہ
باقی فاسفورس ابھی پگھلی ہوئی شکل میں میز پر آہستہ آہستہ بہہ رہی تھی۔ میں نے
جلدی سے ایک گتہ سا اُٹھایا اور آگ کے شعلے پر ماردیا۔ آگ کا شعلہ تو نہ بجھا
البتہ گتے نے بھی آگ پکڑ لی۔ اسی اثنأ میں باقی ماندہ فاسفورس بھی آگ بن چکی
تھی۔ ہم جس کسی شئے سے فاسفورس کے شعلے کو بجھانے کی کوشش کرتے وہی چیز آگ پکڑ
لیتی۔ یاخدا! یہ کیا ماجرا ہے؟ کیا کوئی شئے اس آگ کو نہ بجھائے گی۔ ہمارے پانی
لانے اور اس پر ڈالنے تک میز نے بھی آگ پکڑ لی۔ قصہ مختصر جب تک ہم فاسفورس کو
بجھاتے آدھا میز جل چکا تھا۔
اگلے دن طلبہ
کے والدین پرنسپل آفس پہنچ گئے۔ پرنسپل نے مجھے بلوایا۔ خوب ڈانٹ پلائی اور یہ
فیصلہ ہوا کہ آج کے بعد اِس سکول میں کوئی پریکٹکل نہیں کروایا جائے گا۔
اب میں ایک
یونیورسٹی میں پڑھاتاہوں۔ اگرچہ میں فلسفہ کا مضمون پڑھاتاہوں لیکن گاہے بگاہے
طلبہ سے پوچھتا رہتاہوں کہ وہ لیبارٹری میں کیا کرتے رہتے ہیں تو یہ سن کر بے پناہ
افسوس ہوتاہے کہ وہ کچھ بھی نہیں کرتے۔ اور وہ کچھ، کیوں کرکریں؟ سب ٹیچرز ہی میری
طرح ہیں۔ بلکہ میں تو پھر بھی بھٹو دور کی یادگار ہوں۔ اب تو زیادہ تر ٹیچرز
ضیأالحق دور کی یادگار ہیں۔ جب قوم نے مکمل طور پر سائنس کو خیرباد کہہ دیاتھا۔
میں نے تھیوڈور
کلوزا کا ذکر کیا۔ وہ بھی جرمن کا ایک کاغذی سائنسدان تھا۔ (کلوزا کو کاغذی کہنا
ویسے تو زیادتی ہے، میں نے یونہی اذراہِ تفنن کہاہے۔ کلوزا بہت بڑا سائنسدان تھا)
تھیوڈور کلوزا وہ معروف ریاضی دان ہے جس نے سب سے پہلے یہ خیال ظاہر کیا تھاکہ یہ
دنیا تھری ڈائمینشنز سے زیادہ ڈائمینشنز کی حامل بھی ہوسکتی ہے۔ کہتے ہیں اس نے
تیراکی کے ذریعے اُن ڈائمینشنز کو تصورمیں لانے کا فیصلہ کیا تو بازار سے جاکر
’’تیراکی سیکھیے!‘‘۔۔۔۔۔۔ کتاب خرید لایا۔ اور پھر پوری کتاب بار بار پڑھنے کے بعد
اس نے گہرے پانی میں چھلانگ لگادی اور مرتے مرتے بچا۔ اسی مقام پر کہا جاتاہے،
سبحان تیری قدرت! کلوزا کانظریہ جسے بھلا دیا گیا تھا۔ کلوزا کا نظریہ اب آکر
سٹرنگ تھیوری کی بنیاد بنا۔ چلو! ایک کاغذی سائنسدان نے کچھ تو کردکھایا۔ اس بات
پر تاریخ شاہد ہے۔ لیکن کیا ہمارے کاغذی سائنسدان بھی کبھی سچ مچ پانی سے چلنے
والی کاریں بنا لینگے؟
پیاس پاکستان
کی سب سے حسّاس یونیورسٹی ہے۔ جہاں پارٹیکل فزکس پڑھائی جاتی ہے۔ میں نے اپنے ایک
نہایت قریبی جاننے والے ایم فل کے ایک سکالر سے سنا کہ ابھی تک ہم پارٹیکل کی حرکت
کا مطالعہ کرنے والے آلات سے محروم ہیں۔ ہمیں ڈمی چیزوں اور ماڈلز کی مدد سے
پارٹیکل فزکس پڑھائی جاتی ہے۔
ہمارے سکولوں
میں اوّل تو لیبارٹریز ہی نہیں ہیں اور اگر ہیں تو عملی تجربات نہیں کروائے جاتے۔
ہم صرف پریکٹکل کی کاپیاں بناتے ہیں۔ کچی پنسل سے ڈرائنگ کرکے تمام تجربات کرتے
ہیں جس ڈرائنگ کے نقوش عمر بھر ہماری نظروں سے نہیں ہٹ پاتے۔ مجھے خود یہ جاننے
میں کئی سال لگ گئے تھے کہ پریکٹکل کی کاپی میں جس براسیکا کے پھول کی شکل میں نے
بنائی تھی وہ یہی میرے کھیتوں میں اگنے والا سرسوں کا پھول ہے۔ ہم سب کچھ کاغذ پر
کرتے ہیں۔ سارےپاکستانی جانتے ہیں کہ ہم کاغذی قوم ہیں۔ ہمارا آئین آج تک فقط
کاغذوں کا انبار ہے۔ ہمارے کلرک کاغذوں کے بوجھ تلے عمر بِتا دیتے ہیں۔ ہمارے
سائنسدان تک کاغذی ہیں جو خوابوں اور خیالوں میں ہی ایجادات کرنا جانتے ہیں۔ میرا
ہی ایک شعر ہے کہ،
سناہے حشر میں بھی کارروائی کاغذی ہوگی
کسی سے نامۂ اعمال لکھوا لوں تو آتا ہوں
کسی سے نامۂ اعمال لکھوا لوں تو آتا ہوں
No comments:
Post a Comment