تازہ ترین

Post Top Ad

Sunday, March 22, 2020

کرونا کا عذاب کیوں آیا؟!


میں نے چند دن سے بہت سوچا ، بہت سوچا کہ آخر تمام انسانیت پر ہی عذاب کیوں آ گیا؟
میں ملحدین کو مخاطب نہیں کر رہا،  لیکن تمام مذاہب کے ماننے والے اس  وقت ’’اپنے اپنے خدا‘‘ کی طرف لوٹ رہے ہیں ۔۔ فرانسیسی وزیر اعظم نے بے بس ہو کے کہا آسمان والا ہی روکے تو روکے ٹرمپ نے تمام اقوام سے کہا کہ بس اب دعا۔ اٹلی والے بھی یہی کچھ کر رہے ۔ مسلمان عمومی طور پر بے عمل ہیں لیکن الله کو پکارنے میں بھی سرعت کرتے ہیں۔ یعنی تمام اقوام اپنے اپنے اللہ کے تصور کی طرف لوٹ رہی ہیں ۔
لیکن میں مسلسل سوچ رہا ہوں۔ واقعی یہ کوئی لفظوں کی بازی گری نہیں اور نہ ہی سستی قسم کی جذباتیت۔ میں نے واقعی بہت سوچا۔
آخر میں ایک نتیجے پر پہنچ گیا ۔
آپ کو مجھ سے اختلاف کا حق ہے، میرے نتیجے سے آپ انکار کر سکتے ہیں۔ لیکن پھر یہ ضرور کہوں گا کہ اس سے مضبوط وجہ تلاش کر دیجئے۔
ہاں آگے چلنے سے پہلے عرض کر دوں کہ یہ وائرس، بیکٹریا، ظاہری وجوہات ہوتی ہیں۔ یہ وبا کے پھیلاؤ کا سبب ضرور بنتی ہیں لیکن ان وجوہات کو ’’حرکت کا حکم‘‘  دینے والی ہستی کوئی ہوتی ہے۔
جی ہاں!
میں نے سوچا کہ بدترین گناہ شرک ہے اور الحاد ہے۔  یعنی الله کی ذات کا انکار یا اس کی ذات سے شرک ۔ پھر سوچا کہ کیسے ممکن ہے کہ جو الله  صدیوں سے انسان کی یہ شوریدہ سری اور سرکشی برداشت کرتی چلا آ رہا ہے وہ یوں برہم ہو جائے کہ تمام تر انسانیت کو ہی سزا دینے پر آ جائے۔ پھر شرک کی سزاء کو خود آخرت پر مؤخر کر کے مہلت بھی دے رکھی اور مشرکین کو بہترین انعامات زندگی بھی دے رکھی ہے۔ اور پھر مواحدین بھی اس عتاب سے محفوظ نہیں۔ لیکن یہ بھی دماغ میں بھلا شرک سے بڑا کیا گناہ ہو سکتا ہے؟
پھر مجھے یاد آیا کہ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا تھا کہ ’’الله کفر کی حکومت برداشت کر لیتا ہے لیکن ظلم کی نہیں۔‘‘
اور جیسے آنکھوں سے پردہ ہٹ گیا، روشنی ہو گئی، دھند چھٹ گئی۔
پچھلے دو عشروں سے انسانیت، جی ہاں تمام کی تمام انسانیت  ایک ایسے مجموعی ظلم کی ساجھے دار ہے کہ جس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
آپ جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں ظلم پر مبنی ایک قرار داد منظور ہوئی اور امریکہ نے درجنوں ملکوں کی افواج کو ساتھ لے کر افغانستان پر حملہ کر دیا۔ تمام دنیا، حتی کہ افغانیوں کے ہم مذہب مسلمان ممالک بھی اس جرم میں شریک تھے۔
ظلم یہیں پر بس نہ ہوا بلکہ اگلے چند برسوں میں یہ مشق ستم عراق پر  توڑی گئی۔ لاکھوں معصوم مرد عورتیں اور بچے تمام تر انسانیت  نے باہم مل کر قتل کر دیے۔ افسوس کسی کا ضمیر نہ جاگا۔ لیکن اس ظلم کی انتہا شام میں ہوئی۔ پورے پورے شہر، بستیوں کی بستیاں، آبادیاں بمباری کر کے صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے۔
روس نے باقاعدہ نہتی آبادیوں پر بیرل بم کے تجربات کیے۔ اس بم سے پورے کا پورا محلہ تباہ ہو جاتا تھا۔ شام کے تمام ہسپتال تباہ کر دیے گئے۔ کبھی جنگوں کا اصول ہوتا تھا کہ نہتی آبادیوں اور شہروں پر بمباری نہیں کی جاتی تھی۔ لیکن شام میں لاکھوں شہریوں کو قتل کیا گیا۔
اور یہ تمام ظلم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کیا گیا۔ امریکہ روس ایران اس قتل عام کے مجرم تھے، فرانس، انگلینڈ، آسٹریلیا، مغربی ممالک نے اپنے فوجی ساتھ شامل کیے اور شریک مجرم ہو گئے۔ پاکستان سعودی عرب اور ترکی تائید کنندہ مجرم تھے۔ جبکہ باقی تمام ممالک بھی تائید کی صورت اس جرم کے حصے دار۔
مستقبل کا انسان جب سوچے گا تو شاید اس کے لیے یقین کرنا مشکل ہو جائے کہ کیسے ممکن ہے تمام دنیا، ایٹمی طاقتیں، ان کے طفیلی ممالک سب مل کر ایک نہتی قوم کو قتل کرنے چل  نکلے۔ لیکن ایسا ہوا، افسوس ہم اسی بے حس قوم اور وقت کا حصہ ہیں سو یقین کرنا مجبوری ہے۔ کہ مہذب انسانیت نے مل کے ایسا جرم کیا کہ یقین نہیں آتا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے۔
پھر ابھی پچھلے دونوں جو کچھ کشمیر میں ہوا، اور ہو رہا ہے۔ جس طرح ایک پوری قوم کو قید کر دیا گیا اور عالمی ضمیر خاموش رہا، بلکہ ابھی تک اپنے ہونٹ سیئے ہوئے ہے۔ روہنگیوں کے قتل عام پر انسانیت بھنگ پی سوئی رہی ۔ ایغور مسلمانوں پر ظلم کے باوجود باوجود سب نے اپنا اپنا تعلق بچایا۔
میں واقعی بہت دن سے مسلسل سوچا تو مجھے یہی لگا۔ الله نے تمام اقوام کو ان کے مشترکہ ظلم پر سزاء دینےکا فیصلہ کر لیا ہے۔
کسی کو ظلم کرنے پر... کسی کو ظلم میں شریک کار بننے پر تو کسی کو سرعام ہوتے ظلم کو دیکھ کر خاموشی اختیار کر لینے پر۔
ہاں، ممکن ہے کوئی دوست  کہے کہ ظلم حاکموں نے کیا سزاء عوام کو کیوں تو  مختصر ترین جواب ہے۔
’’عوام ہی حکمرانوں کو بناتے ہیں۔‘‘
ممکن ہے کہ آپ کو میرے نکتہ نظر سے اختلاف ہو، آپ کا حق ہے، لیکن مجھے تو یہی لگ رہا کہ وہ جو شامی بچے نے دم نکلتے نکلتے کہا تھا نا:
’’میں اپنے الله جی کے پاس جا کے سب بتا دوں گا۔‘‘
بس اس نے بتا دیا ہے۔


  نوٹ:
            مقالہ نگار کے ساتھ’’انتخاب اردو‘‘ ٹیم کا اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ہے۔
            سائٹ پر کوئی اشتہار دیا گیا تو نیک نیتی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، مشتہر کے ساتھ لین دین وغیرہ معاملات کے ذمہ دار نہیں۔
            آپ بھی اپنی تحریروں کو ’’انتخاب اردو‘‘ کی زینت بنانا چاہیں تو ای میل کریں:
             intikhaburdu@gmail.com



No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot