تحریر: عبدالرحمن ثاقب (سکھر)
کرپشن ایک ناسور ہے جس نے ملک کی جڑیں کھوکھلی
کردی ہیں۔ اسی طرح منشیات ایک زہر ہے جس نے نسل نو کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
موجودہ حکومت کرپشن کے خلاف بلند و بانگ دعوے
کرکے اور بہت سے کرپٹ افراد کو ساتھ ملا کر برسراقتدار آئی تھی لیکن تاحال کسی کے خلاف
کرپشن کا کوئی ثبوت عدالت میں پیش نہیں کرسکی اور نہ ہی کرپشن کے کیس میں کسی کو سزا
دلوا سکی اور نہ ہی کسی سے کرپشن کی رقم نکلوا سکی۔ بلکہ پندرہ ماہ چور چور اور ڈاکو
ڈاکو کہتے گذار دیے اور ملک میں یہ تاثر اُبھر کر سامنے آیا ہے کہ کرپشن کے خلاف احتساب
کا نعرہ صرف مخالفین کو زچ کرنے اور دبانے کےلیے لگایا جارہا ہے کیونکہ کرپٹ افراد
حکومت میں موجود ہیں۔ جن لوگوں کو کرپشن کے نام پر گرفتار کیا گیا وہ آہستہ آہستہ ضمانتوں
پر رہا ہورہے ہیں۔ اور کرپشن کے خلاف شور بھی کمزور پڑ رہا ہے۔ اور جن کے خلاف کرپشن
کے کیس بنا کر ان سے وصولیاں کرنی تھیں الٹا ان پر حکومتی خزانے سے خرچ کیا جارہا ہے۔
اور اگر ملک ریاض کی منی لانڈرنگ کی رقم برطانیہ سے موصول ہوئی بھی تو اس کو قومی خزانے
میں جمع کرانے کی بجائے عدالت کی طرف سے اس پر عائد کیے ہوئے جرمانے کی مد میں جمع
کروا دیا گیا اور وزیراعظم نے اپنے ترجمانوں سمیت پوری حکومتی مشینری کو اس موضوع پر
بات کرنے سے منع کردیا مبادا کہیں ملک ریاض ناراض نہ ہوجائے۔ حالانکہ اصولی طور پر
یہ رقم قومی خزانہ میں جمع ہونی چاہیے تھی۔ اگر کسی سیاستدان سے اس طرح کی وصولی ہوئی
ہوتی تو PTI کی قیادت‘ وزراء‘ ترجمانوں اور کارکنوں نے شور مچا کر آسمان سر پر اٹھا لینا
تھا لیکن ملک ریاض کا نام آنے پر محسوس ہوتا ہے سب کو سانپ سونگھ گیا اگر کسی نے آواز
نکالی تو اس کی خیر نہیں ہے۔
ضرور
پڑھیں: توہین
رسالت کا مرتکب جنید حفیظ: اصل حقائق
کرپشن کے خلاف شور مچانے والے حکمران اپنے خلاف
فارن فنڈنگ کیس سے بچنے کی پانچ سال سے کوشش کررہے ہیں اور تاحال اسٹے آرڈر کے پیچھے
چھپ کر وقت گذار رہے ہیں۔ اسی طرح سے پشاور BRT میں کرپشن کے خلاف تحقیقات کو
رکوانے کےلیے اسٹے آرڈر لیا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مالم جبہ اور ہیلی کاپٹر کیس بھی ان
کی جان نہیں چھوڑ رہا ہے جو خود کو عدالت سے کلیر نہیں کرواسکتے وہ دوسروں کا کیا احتساب
کریں گے؟
یکم جولائی 2019ء کو رکن قومی اسمبلی اور ن لیگ
پنجاب کے صدر رانا ثناءاللہ کو ہیروئن اسمگلنگ کیس میں گرفتار کیا اور حکمرانوں کی
طرف سے بڑے بلند و بانگ دعوے کیےگئے کہ بہت پختہ ثبوت موجود ہیں اور چند دن کی بات
کہ رانا ثناءاللہ کو سزا ہوجائے لیکن عدالت میں ثبوت پیش نہ کیےگئے۔ بلکہ الٹا ہر
پیشی پر راناثناء اللہ کی طرف سے وفاقی وزیر صاحب کے لیے ایک سوال ہی دہرایا جاتا
رہا کہ ’’مجھ کو گرفتار کرتے وقت جو ویڈیو تیار کی گئی ہے وہ ہے کہاں‘‘ لیکن بھولے
میاں کے پاس کچھ ہوتا تو عدالت میں پیش کرتے۔ باالآخر عدالت نے 23 دسمبر 2019 کو رانا
ثناءاللہ کی ضمانت منظور کرکے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
ضرور
پڑھیں: ایک شہری کا
ورد پوش کے نام کھلا خط
محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی وزراء اور ترجمان صرف
زبانی جمع و خرچ کے ماہر ہیں اگر ان کے پاس ثبوت ہوتے تو گرفتار شدہ لوگ رہا نہ ہوتے
بلکہ ان سے رقم وصول کی جاتی اور قومی خزانہ بھرا جاتا۔ لیکن حکومت کی طرف سے مختلف
کیسوں کو دیکھ کر اور گرفتار شدہ لوگوں کو رہا ہوتے دیکھ کر مثال یاد آتی کہ ’’کھودا
پہاڑ اور نکلا چوہا۔‘‘
No comments:
Post a Comment