تازہ ترین

Post Top Ad

Monday, December 23, 2019

توہین رسالت کا مرتکب جنید حفیظ: اصل حقائق


تحریر وتحقیق: ملتان وُکلا سوسائٹی
مُلتان بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں ایم فل انگلش کے سٹوڈنٹ، ویزیٹنگ لیکچرر اور توہین رسالت کے مُلزم ’’جُنید حفیظ‘‘
نوٹ1: کیس کے درج ذیل تمام تر واقعات کوئی جذباتی آرٹیکل یا افسانہ نہیں بلکہ یہ حالات اس کیس کی اب تک کی عدالتی کاروائی، گواہوں کے بیانات، یونیورسٹی ریکارڈ اور کیس کی تصدیق شُدہ  فائل سے لئے گئے ہیں جو دستاویزات، بیانات، شواہد، انکوائری رپورٹ، یونیورسٹی کمیٹی کی انکوائری رپورٹ، پولیس رپوٹ پرمبنی ہیں اور یہ اس واقعے پر پہلی مکمل تفصیلی رپورٹ ہے۔
نوٹ2: اس کیس میں بیان کئے گئے کسی بھی واقعے کے متعلق کسی بھی قسم کی دستاویزات کی مصدّقہ کاپی عدالت سے چند سو روپے کے عوض حاصل کی جا سکتی ہے۔

13 مارچ 2013  کو امریکی کونسلیٹ جنرل لاہور کے کونسلر جنرل مسٹر جیسن ریف کو بشریٰ عزیز نامی ایک امریکی شہری درج ذیل ای میل بھیجتی ہے۔
Hello, Mr۔ Reiff,
“I don't know if you are still there or not, but I hope some responsible person will get my email۔ In Pakistan one of our family friend is accused of “Blasphemy”۔ He is on run to save his life۔ I just wonder if you folks can help him? And what is the procedure to get help from our embassy۔ Thank God I am a US citizen and living in USA, but he is Pakistani and in Pakistan۔ Thank you”

یہ واقعہ نہ یہاں سے شروع ہوتا ہے اور نہ ختم۔
22 فروری 2013 کی صبح چند طلبہ انگلش ڈیپارٹمنٹ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کی چیئر پرسن ڈاکٹر شیریں زبیر کے دفتر میں ایک درخواست ڈاکٹر شیریں کو دیتے ہیں جس میں  ایم فل انگلش کے طالب علم اور انگلش ڈیپارٹمنٹ کے وزیٹنگ لیکچرر جنید حفیظ کے متعلق چند شکایات درج ہوتی ہیں کہ جُنید حفیظ  دوران لیکچر، اپنے فیس بُک اکاؤنٹ اور فیس بُک پر تخلیق کردہ پیج پر مذہب، حضور صلیّ اللہ علیہ وسلّم اور اُمہات المومنین کی تضحیک کررہا ہے لہٰذا اس کی سرگرمیوں کو روکا جاۓ اور اس کے خلاف کاروائی کی جائے۔
ڈاکٹر شیریں وہ درخواست لے لیتی ہے اور طلبہ کو کہتی ہے کہ آپ تھوڑی دیر باہر رُکیں میں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹر شیریں زبیر طُلبہ کو اندر بُلاتی ہے اور اُن کے سامنے اُس درخواست کو پھاڑتی ہے اور اپنے کمرے میں موجود dust bin میں پھینک دیتی ہے اور طُلبہ کو غُصّے سے بھرے لہجے میں وارننگ دیتی ہے کہ
’’اگر اس بات کا کسی سے ذکر کیا یا دوبارہ ایسی شکایت لے کر آئے تو تُم لوگوں کو بغیر ڈگری دئیے ڈیپارٹمنٹ سے نکال دوں گی۔‘‘
طلبہ واپس چلے جاتے ہیں۔
اس کے بعد چند ڈے سکالرز طلبہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو جُنید حفیظ کے خلاف اسی طرح کی ایک درخواست پیش کرتے ہیں جس میں 25 فروری 2013 کو بی زی یو کے IMS ہال میں ہونے والے سیمینار کا ذکر کرتے ہیں جس میں سیمینار کے مقرر جُنید حفیظ کے اللہ تعالٰی کی شان بارے تضحیک آمیز کلمات اور بسم اللہ کے مذاق اُڑائے جانے کا ذکر شامل ہوتا ہے۔
طلبہ درخواست دے کر واپس آجاتے ہیں لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ کیونکہ وی سی جب شیریں کو بُلا کر اس واقعے کا پوچھتے ہیں تو شیریں کہتی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہُوا۔
7 مارچ 2013 کو جُنید حفیظ کے فیس بُک پیج so called liberals of pakistan پر ایک پوسٹ آتی ہے جس میں تین سوالوں کے ذریعے نبی اکرم صلیّ اللہ علیہ وسلّم اور اُمہات المومنین کی شان میں صریحاً گُستاخی کی جاتی ہے۔
پوسٹ درج ذیل ہے:
▪          پہلا سوال:
تو پھر زینب کے خاوند کو اپنا منہ بولا بیٹا کیوں بنایا؟
▪          دوسرا سوال:
زینب کے پرکشش جسم پر نظر پڑنے کے بعد ہی عرب سے منہ بولے رشتوں کا رواج ختم کرنے کا خیال کیوں آیا؟
▪          تیسرا سوال:
اگر حرب سے منہ بولے رشتوں کا رواج ختم کرنے کا ارادہ مبارک فرمایا تو اپنی بیویوں کو مسلمانوں کی مائیں قرار دے کر ان بیچاریوں کو اپنی موت کے بعد کیوں شادی کی اجازت نہیں دی یہ بھی تو منہ بولا رشتہ تھا جو محسن انسانیت بنایا تھا۔
 (ملا منافق رحمۃ اللہ علیہ)

گروپ میں موجود طلبہ جُنید حفیظ کو پوسٹ ہٹانے کا کہتے ہیں لیکن جُنید حفیظ وہ پوسٹ نہیں ہٹاتا۔ طلبہ اُس پوسٹ کو لے کر کافی غُصّہ ہوتے ہیں اور پھر چند دوستوں کے مشورے سے ایک سینئیر ڈاکٹر پروفیسر کو مِلتے ہیں۔ پروفیسر طلبہ کو شروع میں یہ کہہ کر انکار کر دیتا ہے کہ آپ اپنی ڈیپارٹمنٹ کی head سے رابطہ کریں جس پر طلبہ ساری صورتحال سے آگاہ کرتے ہیں کہ ڈیپارٹمنٹ کی head  اُن کی بات سُننے پر آمادہ نہیں ہے اور وہ اُنہیں یونیورسٹی سے نکال دے گی۔
یہ بات سُن کر پروفیسر ڈاکٹر شیریں سے بات کرتا ہے اور جُنید حفیظ کو یونیورسٹی میں اپنی رہائش گاہ پر بُلاتا ہے جہاں ڈیپارٹمنٹ کے طلبہ بھی موجود ہوتے ہیں۔ پروفیسر جُنید حفیظ کو اُس کی فیس بُک والی پوسٹ کے بارے میں بتاتا ہے جس پر جنید حفیظ کہتا ہے کہ اُس نے یہ گروپ آزادی اظہار رائے کے لئے بنایا ہے لہذا وہ کسی بھی پوسٹ کو نہیں ہٹا سکتا۔ اس کے بعد طلبہ اور جنید حفیظ چلے جاتے ہیں۔
دو دِن گزرنے کے باوجود وہ پوسٹ ڈیلیٹ نہیں ہوتی بلکہ یہ سلسلہ مزید تیز ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد تین مزید پوسٹس آتی ہیں جن میں peace be upon him کی بجائے حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کے نام کے ساتھ نعوذ باللہ piss be upon him لکھا ہوتا ہے۔ ایک اور پوسٹ آتی ہے جس کا عنون Muhammad the Rapist اور Muhammad the sex maniac لکھا ہوتا ہے اور اس طرح کی کافی پوسٹس آتی ہیں جن کا بیان کرنا کسی بھی مُسلمان کے لئے نا مُمکن ہے۔
 یہ بات ہاسٹل اور  پوری یونیورسٹی میں  پھیل جاتی ہے ہے جہاں مختلف ڈیپارٹمنٹس کے طلبہ سٹرائیک پر اتفاقِ رائے کر لیتے ہیں۔
12 مارچ 2013 کو طلبہ تحریری طور پر دوبارہ ایک درخواست وائس چانسلر کو جمع کرواتے ہیں جس میں جُنید حفیظ کیخلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کرتے ہیں اور بصورت دیگر سٹرائیک کا عندیہ دیتے ہیں۔
جُنید حفیظ 12 مارچ کی رات اپنے ہاسٹل سے اپنے ضروری سامان سمیت فرار ہوکر ڈاکٹر شیریں کے گھر چلا جاتا ہے۔
13 مارچ 2013 کی صبح UGS ڈیپارٹمنٹ،  English ڈیپارٹمنٹ کے باہر احتجاج شروع ہو جاتا ہے جس میں دونوں ڈیپارٹمنٹس کے پندرہ سو کے قریب طلبہ احتجاج کرتے ہوئے UBL چوک سے ملحقہ روڈ کو بلاک کردیتے ہیں اور اسی دوران دوسرے ڈیپارٹمنٹس سے  طلبہ کی ایک کثیر تعداد اس احتجاج میں شمولیت اختیار کر لیتی ہے۔
تھوڑی دیر بعد یونیورسٹی کے RO چند سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ طلبہ کے پاس پہنچتے ہیں۔ طلبہ احتجاج کرتے ہوئے جُنید حفیظ کی گرفتاری اور اُس پر شفاف انکوائری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد پولیس اور اعلٰی ضلعی حُکّام بھی موقع پر پہنچ جاتے ہیں۔
پولیس کے اعلٰی ضلعی  افسران فُٹ پاتھ پر چڑھ کر طلبہ سے خطاب کرتے ہیں اور یقین دہانی کراتے ہیں کہ توہین رسالت کے اس واقعے میں جو بھی ملزمان شامل ہوں گے اُن کو  کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ موقع پر چند طلبہ کے بیان ریکارڈ کیے جاتے ہیں اور پھر باقی طلبہ سے پولیس اور انتظامیہ درخواست کرتی ہے کہ وہ اپنی کلاسسز  میں چلے جائیں اور اپنی تعلیم پر توجہّ دیں۔ جس کے بعد طلبہ منتشر ہوجاتے ہیں۔
CPO ملتان ڈاکٹر رضوان اس واقعے کی تحقیق کے لئے 2 عدد سینئر ایس پی، ڈی ایس پی، ایس ڈی پی او، سب انسپکٹر اور آئی ٹی انچارج ملتان پر مبنی ایک JIT تشکیل دے دیتے ہیں۔
پولیس کے افسران جنید حفیظ کی گرفتاری کے لئے یونیورسٹی میں جنید کے متعلقہ ہاسٹل میں جاتے ہیں جہاں پر اُنہیں معلوم پڑتا ہے کہ جُنید حفیظ واقعے سے ایک دِن پہلے ہی ہاسٹل سے اپنے ضروری سامان سمیت چلا گیا ہے۔ جنید کے  چند ہاسٹل فیلوز نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر پولیس کو بتایا کہ جُنید حفیظ رات کو ڈاکٹر شیریں زبیر کے گھر چلا گیا تھا۔  پولیس نے یہ بات وی سی کو بتائی تو وی سی نے فوری طور پر شیریں زبیر کو اپنے آفس میں بُلا لیا جہاں شیریں زبیر نے بتایا کہ جُنید ڈائیوو بس مُلتان سے لاہور کی طرف تھوڑی دیر پہلے روانہ ہو چُکا ہے اور میرے گھر پر موجود نہیں ہے۔
جے آئی ٹی نے فوری طور پر CIA کے ایک سینئر افسر کی قیادت میں پانچ رُکنی ریڈنگ پارٹی جُنید کو گرفتار کرنے کے لئے روانہ کردی۔ ریڈنگ پارٹی گاڑی کو تیز رفتاری سے دوڑاتے ہوئے تقریباً جُنید حفیظ سے پندرہ منٹس پہلے ڈائیوو ٹرمینل کلمہ چوک پُہنچ گئی۔
ریڈنگ پارٹی نے جُنید کو شام کے وقت لاہور ڈائیوو بس ٹرمینل پر کھڑی ڈائیوو بس نمبری LES / 3873 کی سیٹ نمبر 32 پر سے اس وقت گرفتار کیا جب وہ لیپ ٹاپ کھولے فون پر کونسلیٹ کے کسی اہلکار سے بات کررہا تھا۔ جُنید کے قبضہ سے لیپ ٹاپ، ایک عدد فون،  دو عدد سم کارڈ، بارہ عدد پاسپورٹ سائز فوٹو فریش، ایک عدد پی ٹی سی ایل انٹرنیٹ ڈیوائس، امریکی جیکسن سٹیٹ یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس،  شناختی کارڈ،  کپڑے وغیرہ  بر آمد ہوئے جس کو پولیس نے قبضہ میں لے لیا۔
جُنید حفیظ کو رات کے پچھلے پہر سی پی او آفس میں مقبوضہ سامان کے ساتھ JIT کے اہلکاروں کے سامنے پیش کیا گیا۔
جے آئی ٹی کے اعلٰی افسران نے جُنید حفیظ سے باقاعدہ تفتیش کا آغاز کیا جو ایک سوالنامہ کی شکل میں کُچھ یوں ہے؛
سوال1:  کیا آپ اپنا نام پتہ اور اپنے بارے میں بتا سکتے ہیں؟
جواب:  جی میرا نام جنید حفیظ ولد نصیر احمد قوم راجپوت ہے اور میں خانگاہ شریف مٹھّن کوٹ کا رہائشی ہوں، بہاؤالدین یونیورسٹی میں ایم فل انگلش کا طالب علم ہوں اور اُسی ڈیپارٹمنٹ میں بطور ویزیٹنگ لیکچرر تعینات ہوں۔ میں بی ایس انگلش کے بعد ایک سال کے لئے امریکہ سکالر شپ پر بھی گیا تھا اور سکالر شپ ختم ہونے پر واپس آگیا تھا۔
سوال2: کیا آپ ہمارے سامنے اپنے لیپ ٹاپ کو آن کر سکتے ہیں
جواب:  جی ہاں(لیپ ٹاپ آن کر دیا گیا اور فیس بُک کا پیج کھولا گیا۔)
سوال 3: کیا آپ اپنا user name اور password بتا سکتے ہیں۔
جواب: جی ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔@ 6 Junaidhafeez8 اور پاسورڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ rub۔۔۔۔۔۔ 3006۔
(آئی ٹی انچارج ملتان نے فیس بُک پر لاگ ان کیا جس کے نتیجہ میں اکاؤنٹ اور اسے سے جُڑے پیج so called liberals of Pakistan تک رسائی حاصل کی گئی)
سوال4: کیا یہ اکاؤنٹ آپ کا ہے اور اس پیج کو آپ چلاتے ہیں؟
جواب: جی ہاں یہ اکاؤنٹ میرا ہے اور اس پیج کو میں نے چند ماہ پہلے create کیا تھا اور میں اس کا واحد ایڈمن ہوں۔
سوال5: کیا آپ کی اجازت کے بغیر کوئی اس پیج کا ممبر بن سکتا ہے یا اس میں پوسٹ کرسکتا ہے؟
جواب: جی نہیں؛ نہ تو میری اجازت کے بغیر کوئی اس کا ممبر بن سکتا ہے اور نہ کوئی میری اجازت کے بغیر اس میں پوسٹ کرسکتا ہے۔
سوال6: کیا آپ جانتے ہیں کہ اس پیج پر کی گئی پوسٹوں میں اور آپ کے اکاؤنٹ پر گئی پوسٹوں میں  حضور صلی اللہ علیہ وسلم، خُدا باری تعالٰی اور اُمہات المومنین کی شان میں صریح گُستاخی کی گئی ہے؟
جواب: جی میں جانتا ہوں اور مُجھے اس سب پر افسوس ہے۔
سوال7:  آپ نے ان پوسٹس کو ڈیلیٹ کیوں نہیں کیا؟
جواب: دراصل میں نے یہ فورم آزادی اظہار رائے کے لئے بنایا تھا اور میں خود بھی آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتا ہوں جس میں کسی بھی چیز پر سوال اُٹھایا جاسکتا ہے یا رائے دی جاسکتی ہے۔
سوال8: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے اس پیج پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور اُمہات المومنین کی شان میں کھُلم کھلا گستاخی ہو رہی ہے۔
جواب: جی ہاں یہ بات میرے عِلم میں ہے۔

اس کے بعد آئی ٹی انچارج سی پی او ملتان جُنید حفیظ کے اکاؤنٹ اور اُسکے پیج so called liberals of Pakistan   کو جُنید کے دئیے گئے فیس بُک کے user name اور password سے کھولنے کے بعد سارے پراسس کو لائیور ریکارڈ کرتے ہوئے توہین آمیز مواد کے سکرین شارٹ لے لیتا ہے اور snipping tool کے ذریعے اُن کی دو عدد سی ڈیز تیار کرتا ہے اور اکاؤنٹ کو ڈی ایکٹیویٹ کردیتا ہے۔
اگلے دِن مُلزم کو عدالت میں پیش کر کے ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔

16مارچ 2013 کو جے آئی ٹی ٹیم دوبارہ جُنید حفیظ کے اکاؤنٹ اور اُس کے ای میل اکاؤنٹ کو کھولتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ جُنید حفیظ نے ملتان سے لاہور جاتے ہوئے اپنا ای میل کا تمام  ریکارڈ ڈیلیٹ کردیا تھا جس میں فقط  جُنید حفیظ کی ایک ریسرچ بُک اور بشری عزیز کا امریکی کونسلر جنرل کو لکھا گیا ای میل جس میں اُس نے جنید حفیظ کو cc کیا ہُوا تھا اور چند ای میلز، اور  جُنید حفیظ کو سکالر شپ دینے والے ایکسچینج پروگرام کی ای میلز تھی جس کے ذریعے aluminiexchange/state gov نے جنید حفیظ سے رابطہ کیا تھا۔
بہر حال فیس بُک اکاؤنٹ اور گروپ سے مزید گھنٹوں کی سرچ کے بعد جنوری اور فروری 2013 اور 2012 کی 35 کے قریب  مزید توہین آمیز پوسٹس نکال کر JIT نے اپنے قبضہ میں لے لیں۔
ڈی سی مُلتان کے ہوم سیکرٹری پنجاب کو لکھے گئے خط جس میں جُنید حفیظ کے اکاؤنٹ کو مُلتان اور پاکستان میں امن عامہ کے لئے بند کرنے کے مطالبے کا ذکر تھا کی بابت جُنید کے اکاؤنٹ اور پیج سے ثبوت اکٹھے کرنے کے بعد اسے بلاک کردیا گیا۔
کیس کی تفتیش مزید آگے چلی تو  پتہ چلا کے طلبہ کی ڈاکٹر شیریں کو ملزم جُنید حفیظ کے متعلق متعدد تحریری شکایات موصول ہونے کے باوجود ڈاکٹر شیریں  یہ بات انتظامیہ کے عِلم میں  نہیں لائی اور وی سی کو ملنے والی درخواست پر بھی جب وی سی نے شیریں زبیر سے اُسکا مؤقف مانگا تو اُس نے وی سی کو یہ جھوٹ بول کر گُمراہ کیا کہ میں نے اپنے طور پہ یہ معاملہ حل کر لیا ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ اور وائس چانسلر  نے جولائی کے مہینے میں یونیورسٹی کے سب سے سینئر پروفیسرز اور head of the departments پر مبنی ایک preliminary fact finding committee  بنائی جس نے سب سے پہلے 25 فروری 2013 کو آئی ایم ایس ہال میں ہونے والی تقریب کی بابت بیان ریکارڈ کیے جس میں جُنید حفیظ پر تقریب کے افتاحی کلمات میں بسم اللہ کا مذاق اُڑائے جانے کا الزام تھا۔
اُس دِن تقریب میں موجود ایک سینئر پروفیسر ڈاکٹر نے کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں درج ذیل اعتراف کیا؛
’’میں اُس دِن تقریب میں موجود تھی اور ہم سب اُس دِن ایک اچھی اور خوشگوار تقریب سے مستفید ہونے جارہے تھے کہ اچانک جُنید حفیظ سٹیج پر آیا اور اُس نے پروگرام کا آغاز جو کہ عمومی طور پر بسم اللہ سے کیا جاتا ہے مگر حیرت انگیز طور  کُچھ درج ذیل  بے ہودہ کلمات  سے کیا؛
“In the name of Allah Who is always absent without  any leave,  who's omnipotent absence is always taken as his omnipotent presence.”

اس پر مجمع میں موجود لوگوں کو کافی حیرت ہوئی لیکن بعد میں ماحول ذرا ٹھنڈا ہو گیا اور مزید بدمزگی سے بچنے کے لئے تقریب کو جاری رکھا گیا۔ ڈاکٹر شیریں نے بعد میں کبھی اس واقعہ پر جُنید کی باز پُرس نہیں کی جس سے جُنید کو مزید شہہ مِلی۔
جُنید کے ایم فِل کے چند کلاس فیلو طلبہ کے بیان بھی قلمبند کئے گئے جنہوں تحریری طور پر اپنے بیانات میں یہ انکشاف کیا کہ ڈاکٹر شیریں ہمیں critical theory سبجیکٹ کی آڑ میں کلاس میں بے ہودہ قسم کی فلمیں دکھاتی اور پھر اُن پر Assignment  بنانے کا بھی کہتی ہمارے لئے گھر میں ان فلموں کو دیکھنا خاصا مُشکل ہوتا لہذا ہم اکثر صرف گوگل سے متعلقہ فِلم کی تصویریں ڈاؤن لوڈ کرلیتیں اس بابت طلبہ نے شیریں زبیر کو جمع کروائی گئی وہ اسائنمنٹ بھی کمیٹی کو پیش کیں جس میں انڈین فلم Dirty Picture پر اور دوسری انگلش فلموں پر اسائنمنٹ بنانے کا تحریری طور پر کہا گیا تھا۔
ایم فِل کی طالبہ نے بتایا کہ شیریں زبیر نے ہمارے ایم فل کے کلاس فیلو جُنید حفیظ کو کلاس کا مکمل چارج بھی دے رکھا تھا اور اکثر وہ ٹاپک بھی اپنی مرضی سے منتخب کرتا تھا۔  ایک بار جُنید حفیظ نے کلاس کے تمام طلبہ کے لئے  ایک غزل والا پمفلٹ دیا جس کا تنقیدی جائزہ لکھنے کو بھی کہا اس غزل کا اختتام ان دو فقروں پر ہوتا تھا؛
’’خُدا مر چُکا ہے۔‘‘         ’’خُدا مر چُکی ہے۔‘‘
یہ پمفلٹ اور اس کے علاوہ جُنید حفیظ کے فیس بُک اکاؤنٹ سے لے گئی چند پوسٹس بھی کمیٹی نے حاصل کر لیں جو کہ کمیٹی کی عدالت میں موجود فائل کا حِصّہ ہیں۔
شیریں زبیر کی اپنے کلاس کے طلبہ اور انگلش ڈیپارٹمنٹ کے طلبہ کے بیانات میں کمیٹی کو بتایا گیا کہ شیریں کے مذہب بارے نظریات سے یہ واضح تھا کہ وہ مذہب سے شدید نفرت کرتی تھی۔
کمیٹی نے ان سب الزامات کی بُنیاد پر شیریں سے جواب مانگا لیکن شیریں بہانے بناتی رہی اور پھر گول مول کرکے چند سوالوں کا جواب دیا۔
کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ نکالا کے بظاہر شیریں کے خلاف توہین مذہب کا کوئی بالواسطہ الزام ثابت نہیں ہوتا لیکن جُنید حفیظ کو نہ روکنا اور اسے بے جا ڈھیل دینے اور مکمل تحفظ فراہم کرنے کی وجہ سے یہ افسوسناک واقعہ رونما ہُوا اور شیریں کے انتظامیہ کو لا علم رکھنے کی وجہ سے یونیورسٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔
شیریں اس کمیٹی کے قائم ہونے سے پہلے ہی چھٹیاں لے کر جرمنی چلی گئی تھی اور آج تک واپس یونیورسٹی نہیں آئی۔
جُنید حفیظ پر کیس چلا جس میں جُنید حفیظ پولیس کے سامنے اعتراف کرنے کے بعد جب باقاعدہ مقدّمہ چلا تو اپنے اعترافی بیان سے مُکر گیا۔
جُنید نے یہ دفاع لیا کہ وہ 15 مارچ 2013 کو permanent لیکچرر اپوائنٹ ہونے جارہا تھا جس کی وجہ سے اس کے مد مقابل لیکچرر کے چند candidates نے اُس کے خلاف سازش رچائی۔
جبکہ بعد میں جب یونیورسٹی کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی گئی تو پتہ چلا کے جن طلبہ کا نام جنید حفیظ بطور مقابل لیکچرر candidates لے رہا تھا وہ سارے ابھی ایم اے پارٹ فرسٹ کے سٹوڈنٹ تھے جن کی ابھی تعلیم تک مکمل نہیں ہوئی تھی۔
جُنید کے اس دعوے کی مزید تحقیق کے بعد پتہ چلا کے ڈیپارٹمنٹ آف انگلش میں پرمننٹ لیکچرر کی نہ تو کوئی آسامی تھی اور نہ ہی یونیورسٹی نے ایسا کوئی اشتہار دیا تھا۔  یونیورسٹی کی مزید دستاویزات سے یہ بات بھی سامنے آئی کے جُنید تو خود ایم فل کا طالب علم ہے اور اُس کا ایم فل 2014ء کے آخر میں مکمل ہوگا لہذا ایم فِل مکمل کیے بغیر وہ کسی بھی طرح مستقل لیکچرر مقرر نہیں ہوسکتا تھا اور نہ ہی یونیورسٹی کی کوئی ایسی پالیسی ہے کہ ایک ڈیپارٹمنٹ میں ایم فل کا طالب ہوتے ہوئے کوئی امیدوار اُسی ڈیپارٹمنٹ میں مستقل لیکچرر بھرتی ہوسکتا ہے۔
جُنید حفیظ اپنے اس دعوے کی بابت ایک بھی ثبوت عدالت میں پیش نہ کرسکا۔
بعد میں ملزم نے ایک اور مؤقف اپنایا کہ چند ماہ پہلے میرا اکاؤنٹ ہیک ہو گیا تھا جس پر مُلزم سے سوال کیا گیا کہ آپ کی فیس بُک فرینڈ لسٹ میں 1400 کے قریب دوست، کلاس فیلوز، colleagues اور طلبہ موجود تھے  جو آپ کی فیس بُک پوسٹوں پر روزانہ کی بُنیاد پرلائکس اور کمنٹس کر رہے تھے تو کیا آپ کو کِسی نے نہیں بتایا کہ آپ کے اکاؤنٹ پر یہ مواد اپلوڈ ہو رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ آپ کا یہ فیس بُک اکاؤنٹ آپ کے موبائل فون اور ای میل سے منسلک ہے تو پھر کیونکر آپ کو اتنے مہینے اس کا پتہ نہیں چلا جس پر مُلزم کوئی خاطر خواہ جواب عدالت کو فراہم نہیں کرسکا۔
مُلزم نے پھر حیران کُن طور پر ایک تیسرا اور مؤقف لیا کہ اکاؤنٹ تو میرا ہے جو ہیک ہو گیا تھا لیکن ای میل اکاؤنٹ میرا نہیں جس پراسیکیوشن نے یہ سوال پوچھا کہ اگر ای میل اکاؤنٹ آپ کا نہیں تو پھر آپ کا ای میل اور فیس بُک user لاگ ان same کیوں ہے اور دوسرا آپ کا اپنا موبائل نمبر آپ کے اس ای میل اکاؤنٹ کیساتھ منسلک کیوں ہے؟ پراسیکیوشن نے مزید یہ سوال کیا کہ آپ کے اسی ای میل سے یوینیورسٹی کے چند اساتذہ کے ساتھ ای میل کا تبادلہ بھی موجود ہے اور آپ کو امریکی سکالر شپ دینے والے alumniexchange/state gov نے آپ کو اسی ای میل اکاؤنٹ پر ای میل کیوں بھیجی؟ جس کی بابت ملزم پراسیکیوشن کے اس سوال کا بھی کوئی جواب نہ دے سکا۔
پندرہ کے قریب گواہان نے جنید حفیظ کے خلاف اپنے بیانات قلمبند کروائے جبکہ ملزم اپنے دعوے کے دفاع میں ایک بھی گواہ یا  دستاویز پیش نہ کرسکا۔
پاکستان فرانزک لیبارٹری کو جُنید حفیظ کے فیس بُک سے لئے گئے تمام مواد کے بھیجے جانے کے بعد فرانزک لیبارٹری کی رپورٹ بھی جُنید کیخلاف آئی۔
یونیورسٹی کمیٹی کی رپورٹ بھی جُنید حفیظ کیخلاف آئی۔
لہذا حالات و واقعات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ سب قبیح حرکتیں ملزم نے امریکی شہریت/سیاسی پناہ لینے کے لئے کیں۔ بالکُل ایسے ہی جُنید حفیظ کے سابقہ اُستاد اور شیریں زبیر کے خاوند معین حیدر عُرف جوالہ مُکھی نے بھی غیر مُلکی شہریت اور سیاسی پناہ حاصل کی تھی۔

دوسری طرف جُنید حفیظ کا کیس عدالت میں چلنے لگا۔  20 سے زیادہ مرتبہ جنید حفیظ کو عدالت میں پیش گیا اور کبھی کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا لیکن پھر اچانک اس کے ایک سال بعد جنید کے وکیل راشد رحمان کا قتل ہو گیا جس کا مقدمہ اس کیس کی پیروی کرنے والے وکلاء پر درج کروانے کی کوشش کی گئی لیکن ثبوت کی عدم دستیابی اور وُکلاء کے بے قصور ہونے کی وجہ سے یہ مقدّمہ درج نہ ہو سکا۔ اس کے نتیجے میں میں کیس کو جیل میں ہی چلانے کا فیصلہ کیا گیا باوجود اس کے 20 سے زیادہ مرتبہ جنید کو معمولی سیکیورٹی میں مُلتان کچہری لایا گیا اور اُس پر کبھی کسی نے حملہ تو دور کی بات جُملہ بھی نہ کسا۔
جُنید حفیظ کیس کے تمام اخراجات ہیومن رائٹس کمیشن اُٹھاتا ہے اور وکیلوں کی فیس بھی وہی ادا کرتا ہے لہذا جُنید کے والد کے میڈیا کو کیس پر اخراجات کی بابت بیان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پر اس کیس کے متعلق اور جذباتی ڈراما گھڑنے کے لئے غلط طور پر یہ بیان کیا جارہا ہے کہ جُنید حفیظ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے اپنی میڈیکل کی ڈگری چھوڑ کر لٹریچر کی مُحبّت میں گرفتار ہوگیا تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈسپلن کیخلاف ورزی پر اُسے کنگ ایڈورڈ کالج سے نکال دیا گیا تھا جس کے بعد اُس نے مجبوری کے تحت لٹریچر انگلش میں داخلہ لیا تھا۔
این جی اوز کی طرف سے بھاری فیسیں اور سیکیورٹی پروٹوکول ملنے کی وجہ سے جنید کے وکلاء نے بے جا تاریخیں اور پیشیاں لے کر کیس کو  فضول میں جہاں ایک طرف طول دیا ہے وہیں دوسری طرف این جی اوز اور اس مُلک کے مذہب بیزار طبقے نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر  نہ صرف اس کیس کے لئے لابنگ کی بلکہ فرضی قصّے اور کہانیاں بنا کر اس کیس کے اصل حقائق کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی۔ جُنید حفیظ کیس کو دیر تک لٹکانے کے ذمّہ دار جُنید کے اپنے وُکلاء ہیں جنہوں نے فقط ایک گواہ (IT incharge) پر پورے ساڑھے تین سال جرح کی کہ شاید کوئی چیز ان کے حق میں آئے لیکن ایسا نہیں ہوا اور یہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی گواہ پر کی جانے والی سب سے طویل جرح تھی۔
این جی اوز، امریکی سفارت خانہ اور قادیانی طبقے کی جانب سے اس کے متعلق اس قدر مؤثر لابنگ کی گئی کہ جولائی 2019 میں امریکی نائب صدر مائیک پینس نے واضح طور پر جنید حفیظ کی رہائی کا پاکستان سے نہ صرف مطالبہ کیا بلکہ جولائی میں عمران خان کے امریکی دورے کے دوران عمران خان سے جنید حفیظ کی رہائی کے مطالبے اور امریکی امداد کو جُنید حفیظ کی رہائی سے مشروط کرنے کا عندیہ بھی دیا۔
جُنید حفیظ کو توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلّم کے قوانین میں ترمیم کرنے والی لابی قادیانی، دہریے،  امریکہ اور مغربی میڈیا صرف اس لئے ہیرو بنا کر پیش کر رہا ہے کہ اُس نے حضور اقدس،  اُمہات المومنین اور اسلامی شعائر پر حملہ کیا ہے۔
2019 نومبر کے مہینے میں 20 سے زیادہ مغربی اور قادیانی سکالر جن میں قادیانی عاطف میاں بھی شامل ہیں نے پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو جنید حفیظ کی رہائی کے لئے ایک تحریری خط بھی لکھا ہے۔
ڈان اور دوسرے اخبارات متواتر جنید حفیظ اور اس کیس کے متعلق جھوٹ پر مبنی آرٹیکل چھاپ رہے ہیں جس میں اس واقعہ کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی۔ ان اخباروں سے متعدد بار کیس کے اصل حقائق بارے رابطہ کیا گیا اور حقیقت پر مبنی مواد دیا گیا لیکن کبھی کسی اخبار نے سچ نہ چھاپا۔
اس کیس کے اصل حقائق کو مسخ کرکے عام عوام کو بھی گُمراہ کیا جاتا رہا ہے اور اسے مسلسل چند مذہبی طلباء کی نام نہاد معصوم جنید حفیظ کیخلاف سازش قرار دیا جاتا رہا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
کیا جنید حفیظ فارس کا شہزادہ یا نیلسن منڈیلا تھا کہ اُس کے خلاف سازش رچنے کے لئے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلّم کا چند طلبہ نے سہارا لیا اور پھر بعد میں سی پی او مُلتان،  ڈی سی او مُلتان،  ہوم سکیٹری پنجاب، سینئر ایس پی اور ایس پی انوسٹی گیشن، پولیس،  یونیورسٹی انتظامیہ،  وائس چانسلر،  فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے پانچ شعبہ جات کے سربراہان،  سینئر پروفیسر، ڈیپارٹمنٹ کے طلباء اور جنید حفیظ کے ایم فِل کے اپنے کلاس فیلوز اُس کا تختہ اُلٹنے کے لئے اس گھناؤنی سازش کا حصّہ بن گئے؟
یہ کیس کسی خاص گروہ یا طبقے کا کیس نہیں بلکہ پوری اُمّت کا کیس ہے۔ لہذا ہم مغربی میڈیا، امریکی حکومت اور این جی اوز کی اس کیس میں عدلیہ اور حکومت پر دباؤ ڈالے جانے کی شدید الفاظ میں مذمّت کرتے ہیں۔
فاضل ایڈیشنل سیشن جج صاحب نے پورے کیس اور شواہد کا تفصیلی جائزہ لینےاور تین دن اور راتوں تک دونوں جانب سے دئیے جانے والے حتمی دلائل سُننے کے بعد بالآخر جُنید حفیظ کو 295 سی میں سزائے موت،  295 بی میں عمر قید، اور 295 اے تعزیرات پاکستان کے تحت دس سال قید اور پانچ لاکھ روپے جُرمانہ کی سزائیں سُنائیں۔
یہ وہی جج صاحب ہیں جو بِلا خوف و خطر توہین رسالت کے الزام میں دو افراد کو اس فیصلے کے ساتھ بری کر چکے ہیں کہ ان پر الزام ثابت نہیں ہُوا۔
جُنید حفیظ کا کیس پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جس میں رتّی برابر بھی شک موجود نہیں اور گواہوں اور ثبوتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا انبار موجود ہے۔
’’بےشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے اُن کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ (الاحزاب، آیت 57)

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot