تحریر: ابوسیف اللہ
ایوان اقتدار
میں آج چند مسکینوں کا اجلاس ہوا جن کا انتخاب ابھی کچھ ہی ماہ پہلے کیا گیا تھا۔ انتخاب
کرنے والوں نے بہت سی امیدیں وابستہ کی تھیں‘ توقعات کے انبار تھے کہ یہ لوگ ان کی
امیدوں کو بھر لائیں گے لیکن وائے افسوس سکے کھوٹے تھے کسی ایک توقع پر بھی پورا
نہ اتر سکے لٹیا ڈبو دی۔
جس طرح بیک جنبش
قلم سب کا انتخاب کیا گیا تھا آج ویسے ہی سب کو یتیم کر دیا گیا۔ صاف معلوم ہو رہا
تھا کہ پاکستان کے جھنڈے کی طرح ان سب کو جھنڈی دکھائی گئی ہے مگر وہ صرف ہری تھی
اس میں سفیدی کہیں نہیں تھی۔ منتخَب سر جوڑے بیٹھے ہوئے تھے منتخَب اعلٰی کی حالت
ہی دیدنی تھی۔ ویسے تو صاحب بہادر پہلے بھی اوٹ پٹانک ہی بولتے تھے لیکن اس وقت تو
زبان لڑکھڑا رہی تھی اور کوئی لفظ ٹھیک سے ادا نہ ہو رہا تھا۔
ایک صاحب جو
صاحب کم دکھتے ہیں اور اکبر کے شعر ’’نہ ہیوں میں نہ شیوں میں‘‘ کی زیادہ مصداق
ہیں نے ڈرتے ڈرتے ایک جملہ ادا کر لیا ’’اگر ان کو فوج نے نہ روکا تو کیا پولیس
روک پائے گی؟‘‘
ع وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا۔‘‘
جناب من! آپ کا
انتخاب جس جنس سے ہوتا ہے اس جنس کے چیئرمین ’’اسلم ہری پوری‘‘ سے رہنمائی لے لیتے
تو زیادہ بہتر ہوتا۔ سولہ ماہ گذرنے کے بعد بھی آپ لوگوں کی کارگذاری صفر ہو بلکہ
صفر سے بھی آگے بڑھ کر کچھ ہو اور اس کے باوجود آپ توقع رکھیں کہ آپ لوگوں کا
انتخاب کرنے والوں کا دست شفقت دراز رہے؟!
یہ حضرت جو بھی
ہیں‘ ہیں بہت معصوم‘ انہوں نے ہی بے بانگ دہل دعوے کیے تھے: ’’جب عمران آئے گی‘
باہر سے اتنے پیسے ملک میں لائے گی اور آئی ایم ایف کے منہ پر اتنے مارے گی اور
باقی کے عوام پر لگائے گی۔‘‘
معصوم نے اپنی
معصومیت میں اتنا سوال تو کر دیا تھا لیکن نتیجہ سب کو معلوم ہو چکا تھا پہلے سے
اس لیے کسی نے جواب دینے کی ضرورت محسوس نہ کی۔
اب کے باری تھی
اپنے جگا جی کی۔ اجی وہی جو کبھی ختم نبوت کے مجاہد ہوا کرتے تھے، مولانا فضل
الرحمن کو یہ طعنہ دیتے ہیں کہ مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہیں اور الیکشن کمپئن کے
دوران اپنے ہر بینر واشتہار پر ’’مجاہد ختم نبوت‘‘ لکھوانا کبھی نہیں بھولے۔ ویسے
تو یہ صاحب منتخَب ہونے سے پہلے بہت عاجزی سے بولا کرتے تھے اور منتخَب ہونے کے
بعد کسی فرعون سے ادھار کا سریا لے کر گردن میں فٹ کروایا تھا۔ بھڑک ایسی مارتے
تھے کہ شاید سلطان راہی کو بھی یہی صاحب بھڑکیں مارنا سکھاتے رہے ہوں گے۔
بڑے ہی مسمسے
انداز میں مِن مِن کر کے بولے: ’’کوئی معاہدہ کر کے خود کو محفوظ بنانا چاہیے۔‘‘
ٹی چینلز پر
ٹاک شوز میں بیٹھ کر بھڑکیں مارتے ہیں این آر او نہیں دیں گے۔ یہ الگ بات ہے آج تک
کسی بچے نے بھی ان سے این آر او نہیں مانگا۔ روزانہ این آر او کی تسبیح کرتے تھے
کہ شاید کوئی جن بھوت ہی ان سے این آر او مانگنے کو آ جائے۔ ابھی تو صرف منتخَب
کرنے والے نے اپنا ہاتھ ہی سر سے اٹھایا ہے ابھی سے این آر او مانگنے لگ پڑے ہیں۔
پوری ٹیم ہی بھک منگوں کی معلوم ہوتی ہے۔
بس سوالات اور
خدشات کا اظہار کر رہے تھے ایک دوسرے سے کوئی حل المشکلات باقی نہیں رہا اب تو۔ شیخ
چلی صاحب کی بات مکمل ہی ہوئی تھی جواب کسی نے کیا دینا تھا۔ ادھر سے سیالکوٹ کی
مرد نما عورت ایک جانکاہ خبر دیتے ہوئے گویا ہوئیں: ’’اب تو ’ن‘ لیگی بھی آنا شروع
ہو گئے ہیں۔‘‘
نیب کی سر سے
پاؤں تک تحقیقات سے بچنے کے لیے پی ٹی آئی کی ’’چھتری‘‘ کا سایہ لینے والی یہ
خاتون یقیناً کسی دوسری چھتری کا سایہ تلاش کرنے میں دیر نہیں لگائے گی۔ اور اگر
ایسا ہوا تو ایک دو دن میں اپنی باکئ داماں اور پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف اس کے
بیانات بھی منظر پر آنا شروع ہو جائیں گے۔چور بننے کے بعد مہا چور اور چوروں کے
گروہ میں شامل ہوتے وقت بانچھیں کھلی جا رہی تھی اور اب لوگوں کو اکٹھا ہوتا دیکھ
کرٹھنڈے پانی میں بھیگ کر بھیگی بلی کے جیسے میاؤں میاؤں ہو رہی ہے۔
ان سب سے زیادہ
جس کی حالت پتلی تھی، وہ تھے شہنشاہ دعویٰ کنندگان منی لانڈرنگ بر خلاف شریف
برادران۔ دعویٰ کرتے وقت ان کے پاس پکے ثبوت تھے۔ اور کیس دائر کرتے وقت بھی لمبی
چوڑی فہرستیں تھیں۔ مگر جب عدالت میں ثبوت پیش کرنے کی باری آئی تو جتنے بھی دعوے
انہوں نے سنبھال کر رکھے تھے واٹس ایپ اور فیس بک پوسٹوں کی صورت میں وہ سب پی ٹی
آئی کے خیبر پختونخواہ میں سابق دور کی بنی یونیورسٹیوں اور ڈیموں کی طرح ڈیلیٹ ہو
گیا۔ اب تو ججوں کے سامنے کھڑا ہو کر ’’میں‘ میں‘ میں‘‘ کرنے کے علاوہ چارہ ہی نہ
تھا کوئی۔ لہٰذا وہی کیا۔
چونکہ اب تک جو
ہو رہا تھا سب ’’آشیر باد‘‘ سے ہو رہا تھا۔ جو کہ اب مفقود ہے۔ اسی لیے آج کے اس
اجلاس میں ایوان بالا سے کچھ اس طرح نوحہ کنائی ہو رہی تھی جیسے کسی کا ابا فوت ہو
گیا ہو۔
مثالیں تو بہت
ذہن میں آتی ہیں، لیکن معلوم یوں ہوتا ہے جیسے دست شفقت کھینچنے کے ساتھ ساتھ یہ
بھی کہا گیا ہے:
’’او بد بختو!
اور نالائقو! اپنے ساتھ ہماری ساکھ کا بھی کباڑہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اب بھگتو سب
خود ہی۔‘‘
ابھی کھیل کا
کچھ حصہ باقی ہے۔
No comments:
Post a Comment