تحریر: جناب عبدالرحمن ثاقب سکھر
سربراہ حکومت عمران
نیازی اپنی حکومت کو کامیاب سمجھ رہا ہے لیکن عوام کی اکثریت اس کا ناکام سمجھتی ہے
اور اس حکومت اور حکمرانوں سے تنگ آچکی ہے اور جھولیاں اٹھا اٹھا کر حکمرانوں کو بددعائیں
دیتے اور ان کے چلے جانے کی دعائیں کرتے ہیں۔
حکمران یہ بتانے
سے قاصر ہیں کہ عوام کی فلاح و بہبود اور ان کی زندگی مین آسانیاں پیدا کرنے کےلیے
کونسا کام کیا گیا ہے اور کس منصوبے کا آغاز ہوا ہے جس سے غریب عوام کو فائدہ پہنچا
ہو۔
حکمرانوں نے اپنی
اور اپنے وزراء اور مشیروں کی مراعات میں بےتحاشہ اضافہ کرلیا ہے جب کہ غریب عوام کی
آمدن پہلے سے کم اور اخراجات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔
حکمرانوں نے کئی
بار بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا, گیس کی قیمت میں بھی بےتحاشہ اضافہ کردیا اور پٹرول
عالمی مارکیٹ میں سستا ہونے کے باوجود مہنگا کیا گیا.نجانے وہ لوگ گذشتہ دور حکومت
میں جو کیلکیولیٹر سے حساب کرکے بتاتے تھے کہ ایک بیرل پٹرول کی قیمت اتنی ہے اور فی
لیٹر پاکستانی روپیہ میں اتنی بنتی ہے اور اتنے روپئے حکمرانوں کی جیب میں جارہے ہیں
پتہ نہین کہ ان کا کیلکیولیٹر گم ہوگیا ہے، وہ حساب کرکے بتانا بھولے گئے ہیں یا پھر
وہ بھی ظالم کے ظلم میں شریک ہو کر ان کے حصہ دار بن چکے ہیں۔ ٹیکسز کی شرح بڑھا دی
گئی، غریب کاشت کار کےلیے جو پہلی حکومت کھاد پر سبسڈی دیتی تھی نہ صرف اس کو ختم کیا
گیا بلکہ اس کی قیمت میں اضافہ کردیا گیا جو گنا کاشتکار سے 180 روپئے لے کر چینی کی قیمت 50 روپئے
تھی وہی چینی 80 روپئے فی کلو تک جا پہنچی۔ ادویات کی قیمتیں آسمان سے
باتیں کررہی ہین مستقل مریض لوگ پریشان ہیں وہ اپنی خوراک کا بندوبست کریں یا ادویات
خریدیں وہ افراد جن کے بوڑھے والدین گھروں میں بیمار ہیں اور ان کی آمدن پہلے ہی محدود
تھی اب اور سکڑ چکی ہے وہ والدین کی دوائی کےلیے فکرمند نظر آتے ہیں۔ صوبہ پنجاب جو
کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے وہاں پر ڈینگی کی وباہ نے تباہی پھیلا دی ہے حکومت کی
طرف سے سرکاری ہسپتالوں سے مفت کی سہولیات ختم کردی گئی ٹیسٹوں کی قیمتوں میں اضافہ
کردیا گیا کینسر کے مریضوں کو مفت میں ملنے ادویات کی سہولت ختم کردی گئی گذشتہ حکومت
کے تعصب میں جگر کے ہسپتال آئی پی کے ایل کو بند کردیا گیا۔ اس ظالم حکومت نے مریضوں
کو بھی نہین بخشا۔
گندم، چاول، آٹا،
دالیں، گھی، چینی، مصالحہ جات الغرض یومیہ استعمال کی اشیاء کی قیمتین اتنی بڑھی چکی
ہین کہ غریب انسان کےلیے جسم و روح کا تعلق قائم رکھنا مشکل نظر آتا ہے۔
حکومت کی سنجیدگی
کا اندازہ اس کے وزراء و مشیروں کے بیانات سے لگایا جاسکتا ہے جو حزب اختلاف کی جماعتوں
کے ساتھ ساتھ دینی و مذہبی رہنماوں کو دن رات اپنی تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور
کوئی بھی وزیر ایسا نہیں جس کی کارکردگی قابل ذکر ہو۔ حکومت کو اپنی کارکردگی کو بہتر
بنانے کےلیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کارندے قوم پر مسلط کرنا پڑے جنہوں نے ملکی
معیشت کو بہتر کرنے کی بجائے اس کو مزید تباہی کے دہانے لاکھڑا کیا ہے۔
حکومت کسی کو اپنی
کارکردگی کیا بتائے گی کہ اس نے اندرون و بیرون ملک سے اربوں روپئے کے قرض لیے ٹیکسز
کی بھرمار کرکے اور پٹرول، گیس، بجلی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کرکے ملک میں کوئی
ایک میگاپروجیکٹ شروع نہیں حتی کہ دوسال قبل پشاور میٹرو بس منصوبے کا آغاز کیا تھا
وہ بھی کئی بار لاگت میں اضافہ ہونے کے باوجود مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا حالانکہ
اس منصوبہ کے آغاز کے وقت جلد اور کم قیمت میں پورا کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے گئے
تھے۔
حکومت کہہ سکتی
ہے کہ اس نے یہ کیا ہے کہ عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر رکھ دیا گذشتہ حکومتوں
کی طرف سے ملنے والی تمام تر سبسڈیز کو ختم کردیا حتی اہل ایمان کے حج بیت اللہ کے
سفر کےلیے ملنے والی سبسڈی ختم کرکے منکرین ختم نبوت قادیانیوں کو قادیاں جانے کےلیے
سہولت اور سبسڈی دی اور ان کو مزید خوشی کرنے کےلیے سکھوں کے نام پر کرتارپور راہداری
کی ریکارڈ مدت میں تکمیل کی۔ سکھوں کے روحانی پیشوا باباگورنانک کے نام پر یونیورسٹی
کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا اور اس کے نام پر سکہ جاری کردیا گیا۔ اہل وطن جانتے ہیں
کہ قیام پاکستان کے وقت مسلمان مہاجرین پر سب سے زیادہ ظلم و ستم اور ان کا قتل عام
سکھوں نے ہی کیا تھا۔ مسلمان آج تک ان مظالم کو نہین بھول پائے اور حکمران باربار ان
کا نام لے کر مسلمانان وطن کو تکلیف دیتے ہیں اور اہل وطن یہ بھی سمجھتے ہین کہ نام
سکھوں کا لیا جارہا ہے اور خوش قادیانیوں کو کیا جارہا ہے جو کہ اسلام اور پاکستان
دونوں کے دشمن ہیں۔
کشمیر کو عملا طاق
نسیان میں رکھ کر بھلا دیا گیا ہے جس انسانیت دشمن نریندرمودی کی کامیابی کےلیے نیک
تمناوں کا اظہار کیا گیا اسی مودی نے آرٹیکل 270 ختم کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا اور لداخ
و جموں کو الگ الگ کرکے وہاں کشمیری پرچم کے بجائے بھارتی ترنگا لہرا دیا گیا اور ہندووں
کو کھلی چھٹی مل گئی کہ وہ کشمیر میں جائیدادین خرید کر مسلمان اکثریت کو اقلیت میں
تبدیل کردیں۔ لیکن ہمارے حکمران باتوں اور تقریروں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ حتی کہ یو این
او کی سلامتی کاونسل جس کا رکن بننے کےلیے بھارت کو ووٹ دیا تھا اس سلامتی کاونسل میں
مذمتی قرارداد بھی پیش نہ کرسکے اور نہ ہی بین الاقوامی رائے عامہ کو کشمیر کے مسئلہ
پر پاکستان کے حق مین ہموار کرسکے۔ البتہ عمران نیازی نے کھل کر اعلان کردیا کہ کشمیریوں
کے حق مین جہاد کرنے والا ظالم اور کشمیریوں کا دشمن ہوگا۔
حکمران اور ان کے
ہمنوا ٹھنڈے دل سے بتائین کہ کون سا میدان ہے جس میں حکومت نے کامیابی حاصل کی ہو اور
ملک کی غریب عوام کو اس کا فائدہ پہنچا ہو۔
No comments:
Post a Comment