تحریر: جناب پروفیسر عبدالعظیم جانباز
اِسلام ہمیشہ سے ایک فلاحی، باہمی
تعاون اور امن و سلامتی پر قائم معاشرے اور ریاست کی تعمیر و تشکیل کا خواہاں رہا ہے۔
وہ ایک ایسے معاشرے کا متمنی ہے، جس میں ہر شخص کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل ہو رہی
ہو اور افرادِ معاشرہ امن و سلامتی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر رہے ہوں۔ یہی وجہ ہے
اس نے فلاح و بہبود کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے افرادِ معاشرہ کو ایک دوسرے کی کفالت
کاذمہ دار بنایا اور اُنہیں اِس کی ترغیب دینے کے لیے اجر و ثواب کا وعدہ کیا۔ اولاد
اگر چھوٹی ہے تو اُس کے نان و نفقہ اور دیگر اخراجات والدین پر ہیں، والدین کے بوڑھے
و ناتواں ہو جانے کے بعد یہی ذمہ داری اولاد کو منتقل ہو جاتی ہے۔
بیوی کی تمام تر معاشی ضرورتوں
کے لیے حسبِ توفیق شوہر کو ذمہ دار قرار دے دیا گیا اور یتیم بچے کی کفالت کی ذمہ داری
قریبی رشتہ داروں اور ان کے نہ ہونے کی صورت میں دیگر افرادِ معاشرہ پر ڈال دی گئی۔
یہ تو انفرادی سطح پر کفالت کا تصور ہے، اِسے ’’کفالتِ خاصہ‘‘ کہتے ہیں۔
لیکن اگر اِجتماعی طور پر افرادِ
معاشرہ کو کفالت کی ضرورت پیش آتی ہے تو پھر بیت المال اور حکومتِ وقت پر لازم ہے کہ
وہ اِجتماعی سطح پر ’’کفالتِ عامہ‘‘ کا انتظام کرے اور اِس اہم فریضے سے عہدہ برآ ہونے
کے لیے لوگوں سے زکوٰۃ، خیرات اور دیگر عطیات کی صورت میں رقم جمع کرے، (کفالتِ عامہ
ہی کو تکافلِ اجتماعی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔) کفالتِ عامہ کی ضرورت عام طور
پر اُس وقت پیش آتی ہے، جب خدانخواستہ ملک کو قدرتی آفات کا سامنا ہو یا کوئی بڑا حادثہ
رونما ہو اور کسی ایک فرد یا چند افراد کے لیے ضرورت مندوں کی کفالت مشکل ہو جائے۔
ہمارے ملک میں اِس کی مثال 2005ء کا زلزلہ اور گزشتہ تین سالوں
سے مسلسل آنے والا سیلاب ہے، جن میں لاکھوں خاندان بے گھر ہو گئے اور کئی علاقے تباہ
و برباد ہو گئے۔ لہٰذا اجتماعی سطح پر اُن کی بحالی کے لیے اقدامات اُٹھائے گئے۔ لوگوں
کی دوبارہ آباد کاری کے لیے مختلف منصوبے بنائے گئے اور اُنہیں عملی جامہ پہنانے کے
لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا گیا۔
جناب سرورِ دو عالم صلّی اللہ علیہ
و سلم نے مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد مسجد کی تعمیر کے فورًا بعد ہی ’’اُخوّت
وبھائی چارگی‘‘ قائم فرما کر اِسی کفالت کے تصور کو واضح کیا۔ اس اُخوَّت کے تحت مہاجرین
صحابہ کرام کے مالی و اَخلاقی تعاون کی ذمہ داری انصار صحابہ کرام کو سونپ دی گئی۔
آپﷺ کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا کہ تھوڑے ہی عرصے میں مدینہ منورہ ایک فلاحی ریاست
کے طور پر اُبھرا۔ جس کے فیوض و برکات سے ہر کوئی مستفیض ہوا۔ زمانہ رسالت مآبﷺ کے
بعد خلفائے راشدین نے اِنہی بنیادوں پر کفالتِ عامہ کو ترقی دی، خصوصًا حضرت عمر فاروق
پر اسی تربیت کے اثرات تھے کہ آپ نے اپنے دورِ خلافت میں نہ صرف اپنے دائرہ حکومت
میں رہنے والے انسانوں، بلکہ جانوروں تک کی کفالت کی ذمہ داری لی۔ جس کا کھلا ثبوت
آپ کا مشہور قول ہے، آپ نے ارشاد فرمایا:
’’دریائے دجلہ کے کنارے اگر ایک
کتا بھی مر گیا تو اس سے متعلق عمرؓ سے پوچھ ہو گی۔‘‘
یہاں تک کہ آپ نے ایک مرتبہ قحط
سالی کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ
’’اللہ
کی قسم اگر اللہ تعالٰی یہ قحط ختم نہ کرتا، تو میں ہر صاحب حیثیت مسلمان گھرانے میں
اتنے ہی غربا داخل کر دیتا، یعنی ہر گھرانے کو اُن کے افراد کے برابر غریب و مسکین
مسلمانوں کی کفالت کا ذمہ دار بنا دیتا۔‘‘
اِسی طرح ایک اور موقع پر ارشاد
فرمایا:
’’اگر
زندگی سلامت رہی تو میں ایسا انتظام قائم کر کے جاؤں گا کہ عراق کی کوئی بیوہ عورت
کسی دوسرے کی محتاج نہ رہے گی‘‘۔
اس فرمان کے چار دن بعد آپ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا گیا۔
سیدنا عمر فاروق نے کفالت کے تصور
کو اپنے دورِ خلافت میں بہت عام کیا، غربا و مساکین کی کفالت کے لیے بیت المال کے نظام
کو ازسرِ نو ترتیب دیا، وفاقی دار الحکومت مدینہ منورہ کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بیت
المال کی عمارت تعمیر کرائیں، بیت المال کی آمدن و خرچ کا باقاعدہ حساب و کتاب مرتب
کیا، نظم و ضبط کے لیے انتہائی محنتی اور اچھے کردار و شہرت کے حامل افراد کو منتظم
بنایا، سیدنا عبد اللہ بن ارقم مدینہ منورہ کے بیت المال کے افسر تھے، جب کہ کوفہ
میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود اور خالد بن حرث کو بطورِ افسر مقرر کیا گیا اور سب
سے بڑھ کر یہ کہ بیت المال میں آنے والی رقم کو انتہائی احتیاط کے ساتھ خرچ کرتے ہوئے
حقیقی مستحقین تک پہنچایا۔
اِسلام نے کفالتِ عامہ کے تصور
کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مختلف طریقوں سے صاحبِ ثروت لوگوں پرمعاشرے کے نادار، مسکین
اور لاوارث افراد کی کفالت کی ذمہ داری لگائی۔ قرآن مجید کی متعدد آیاتِ کریمہ سے معلوم
ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی کفالت اور ضرورت پوری کرنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے افرادِ
معاشرہ پر لگائی ہے۔ مسئلے کی وضاحت کے لیے چند آیاتِ کریمہ ذیل میں درج کی جا رہی
ہیں:
ترجمہ:
’’ہم نے ان کی دنیاوی زندگی میں ان کی روزی تقسیم کی ہے اور ہم نے (دنیاوی روزی میں)
بعض کو بعض پر کئی درجے فوقیت دی ہے کہ انجام کار ایک، دوسرے سے مال کے ذریعے خدمت
لے۔‘‘ (الزخرف:: 32)
درجِ بالا آیتِ کریمہ میں خدمت
لینے کا ایک معنیٰ یہ ہے کہ ضرورت مند اور غریب لوگ صاحبِ حیثیت سے اپنا حصہ لیں۔ ترجمہ:
’’اور ان لوگوں کے مالوں میں مقرر حق ہے، سوال
کرنے والوں کا اور سوال سے بچنے والوں کا۔‘‘ (المعارج: 25-24)
سیدنا عبد اللہ ابنِ عباس سے مروی ہے کہ اِس آیتِ کریمہ
میں ’’حق‘‘ سے مراد زکوٰۃ مفروضہ ہے، جب کہ ’’سائل‘‘ سے مراد وہ شخص ہے، جو اپنی ضرورت
کا اظہار کر کے لوگوں سے مانگتا ہو اور ’’محروم‘‘ سے مراد وہ شخص ہے، جو ضرورت مند
ہونے کے باوجود لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کرتا جب کہ مالدار شخص اُسے سوال
نہ کرنے کی وجہ سے خوش حال سمجھ رہا ہوتا ہے۔ غرض اِن آیاتِ کریمہ میں زکوٰۃ کے ذریعے
مستحق و محرومین کی امداد کا حکم دیا جا رہا ہے، جو کفالت ہی کی ایک صورت ہے۔ اِس حوالے
سے رسول اللہﷺ کے ارشادات بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’جس
کے پاس دو افراد کا کھانا ہے، تو وہ تین کو کفایت کرے گا اور جس کے پاس چار افراد کا
کھانا ہے تو وہ پانچ یا چھ کو کفایت کرے گا۔‘‘
کفالتِ عامہ یا باہمی تکافل کی
ضرورت ہر زمانے میں رہی ہے اور اِسے یقینی بنانے کی ذمہ داری عام افرادِ معاشرہ سے
زیادہ حاکمِ وقت پر عائد ہوتی ہے۔ مسلمان حکمران پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنی رعایا کی
تمام تر ضرورتوں کا خیال رکھے اور بیت المال کے نظام کو اس طرح مستحکم بنیادوں پر اُستوار
کرے کہ ہر ایک کی کم از کم بنیادی ضرورت (جس کے بغیر حیاتِ انسانی قائم نہ رہ سکے)
پوری ہو سکے۔
قرآن و حدیث کی ان ہی تعلیمات کا
ہی نتیجہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور خلافتِ راشدہ میں اجتماعی طور پر
امداد باہمی کے طریقہ کار کو رواج دیا گیا اور ریاستی سطح پر غربا و مساکین کی کفالت
کو یقینی بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس زمانے میں رعایا خوش حال تھی اور ریاست معاشرتی
و معاشی بے راہ روی سے پاک تھی۔ آج کے حکمرانوں کو رسول اللہﷺکے ارشادات کی روشنی میں
اپنے طرزِ عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے، جو عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے
مہنگائی، بے روزگاری اور افراطِ زر کی صورت میں ان کے لیے نت نئے مسائل پیدا کر رہے
ہیں اور خود اپنے محلات میں ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment