تازہ ترین

Post Top Ad

Monday, April 13, 2020

ریاست مدینہ کا تصور اور اس کی حقیقت


موجودہ حکومت کے سربراہ جناب عمران نیازی صاحب نے مسند اقتدار پر متمکن ہونے کے بعد وطن عزیز کو ریاست مدینہ بنانے کا دعوی کیا تھا۔ اس وقت صاحبانگ بصیرت نے اس دعوی کو ایک سیاسی چال قرار دیا تھا۔ ہمارے ملک میں ہمیشہ سے حکمرانوں نے اسلام کو بطور نعرہ استعمال کیا اور حقیقی طور پر ملک کو اسلام سے دور کرتے چلے گئے۔ اور یہی کچھ نیازی صاحب نے بھی کیا۔
اہل اسلام کےلیے خلافت راشدہ کا دور ایک سنہری اور آئیڈیل دور ہے۔ جب ریاست مدینہ کے باسیوں کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا تھا اور عوام کو ہر قسم کی سہولتین مہیا کی جاتیں تھیں. خلیفہ وقت اپنے آپ کو اپنے رب اور رعایا کے سامنے جواب دہ سمجھتا تھا. خلیفہ وقت اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ نہ خود اٹھاتا نہ ہی کسی رشتہ دار یا قریبی کو اٹھانے دیتا تھا بلکہ ساری رعایا کو یکساں حقوق حاصل تھے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے گھر والوں کو رفاہ عامہ کےلیے خاص کی گئی ملکیتون سے استفادہ کرنے سے منع کردیا تھا۔ محض اس خوف سے کہ کہیں اپنے گھرانے کی طرف داری نہ ہوجائے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے ایک اونٹ خرید کر رفاہی چراگاہ میں چرنے کےلیے چھوڑ دیا۔ جب وہ موٹا ہوگیا تو میں اس کو لے کر بازار گیا۔ عمر رضی اللہ عنہ بازار آئے اور موٹے اونٹ کو دیکھا تو پوچھا:
 یہ کس کا اونٹ ہے؟
آپ کو بتایا گیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ہے۔ آپ فرمانے لگے:
اے عبداللہ ! کیا خوب کیا خوب۔
امیرالمومنین کے بیٹے! یہ اونٹ کیسا ہے؟
عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے بتایا کہ اس اونٹ کو میں نے خریدا تھا اور پھر رفاہی چراگاہ میں چھوڑ دیا تھا میں بھی وہی چاہتا تھا جو تمام مسلمان چاہتے ہیں۔( یعنی اونٹ فربہ اور تروتازہ ہوجائے) عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
وہ کہتے رہے ہوں گے امیرالمومنین کے بیٹے کے اونٹ کو خوب چراؤ امیرالمومنین کے اونٹ کو اچھی طرح سے پلاؤ اے عبداللہ! اپنے اونٹ کی اصل قیمت لے لو اور منافع مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کرادو۔ ( مناقب عمر، ابن جوزی 157,158 )

جناب وزیر اعظم پاکستان عمران نیازی صاحب !!!
آپ کی حکومت میں جس کو آپ ریاست مدینہ کا رول ماڈل کا نام دیتے ہو۔ عوام پر ڈاکے ڈالے گئے کبھی ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کرکے اور کبھی گندم اور چینی غائب کرکے‘ ان کی قیمتین بڑھائی گئین۔ اس چینی مافیا کو جب وفاق سے سبسڈی نہ ملی تو اس نے اپنی قوت کے بل بوتے پر پنجاب سے تین ارب روپئے کی سبسڈی لے لی۔
جناب 180 روپئے من خریدے ہوئے گنے سے چینی 45 روپئے فی کلو مارکیٹ میں عام دستیاب تھی۔ سبسڈی لینے کے بعد اس کے دام میں اچانک تیزی آگئی اور چینی 80 روپئے فی کلو سے اوپر تک چلی گئی۔ ایک طرف چینی مافیا نےحکومت سے تین ارب کے فوائد حاصل کیے در حقیقت وہ تین ارب بھی عوام کے ٹیکسز کے تھے۔ دوسری طرف اتنی زیادہ قیمت بڑھا کر اربوں روپئے عوام کی جیب سے نکلوا لیے گئے۔
جناب عمران نیازی صاحب اگر آپ ریاست مدینہ کے دعوی مین واقعی سچے ہیں تو اس چینی مافیا سے عوام کے اربوں روپئے نکلوائیے۔ اس مافیا میں اگرچہ جہانگیرترین, خسروبختیار, چوہدری برادران, شریف برادران, زرداری کمپنی یا کوئی اور بھی شامل ہو۔ ورنہ یاد رکھیے کل قیامت کے روز عوام کی جیب پر پڑنے والے اس ڈاکہ کا آپ سے بھی حاکم ہونے کے ناطے حساب لیا جائے گا۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور نومسلم بادشاہ
ایک عیسائی بادشاہ جبلہ بن ایہم مسلمان ہوگیا۔ ایام حج میں وہ حج کےلیے مکہ آیا۔ کعبہ کا وہ طواف کررہا تھا۔ اس کی چادر سے ایک اعرابی الجھ گیا۔ جبلہ نے فورا اس کے منہ پر طمانچہ رسید کیا۔ اعرابی سیدھا فریاد کناں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جبلہ کو طلب کیا اور اس سے دریافت کیا کہ معاملہ کیا ہے؟
جبلہ نے کہا: ہاں اس کی شکایت بجا ہے۔ میں نے اسے مارا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اعرابی سے کہا وہ جبلہ کو ایک طمانچہ مار کر اپنا بدلہ لے سکتا ہے لیکن اتنا ہی جتنا جبلہ نے وار کیا تھا۔
یہ فیصلہ سن کر جبلہ کو بہت تعجب ہوا۔ اس نے کہا:
میں ایک بادشاہ ہوں اور یہ ایک بازاری آدمی ہے۔ یہ مجھے تھپڑ مار سکتا ہے؟
کیا میں اور یہ برابر ہیں؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:
اسلام کی نگاہ میں بادشاہ اور رعیت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جبلہ نے کہا:
اچھا کل تک کی مجھے مہلت دیجیے۔
مہلت مل گئی۔ وہ مہلت کا فائدہ اٹھا کر قیصر روم کے پاس بھاگ گیا۔ وہاں پہنچ کر وہ مرتد ہوگیا۔ اور حلقہ اسلام سے نکل کر پھر کفر کے حلقہ میں شریک ہوگیا۔
لیکن کچھ عرصہ بعد اپنی اس حرکت پر وہ نادم ہوا اور اس نے بعض درد انگیز اشعار بھی کہے جن میں اسلام چھوڑنے پر ندامت اور پشیمانی کا اظہار کیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ گوارا کرلیا کہ ایک بادشاہ وقت اسلام سے روگردان ہوجائے لیکن اس نے گوارا نہیں کیا کہ ایک حقیر مسلمان پر ظلم ہو۔ کیا عدل و انصاف کی اس سے بہتر مثال دنیا کی تاریخ میں مل سکتی ہے؟
ہم سانحہ ساہیوال یا مولانا سمیع الحق رحمہ اللہ کے قتل کی بات نہیں کرتے۔ بلکہ اس سے ہٹ کر دیکھا جائے کہ کتنے لوگ ہیں جن پر اس دور حکومت مین ظلم ہوا حکمرانوں اور بڑے لوگوں کو رعایت دے کر غرباء‘ مساکین‘ بیواؤں‘ یتیموں اور ناداروں کے مکانات گرادیے گئے۔ کئی نے بھوک اور افلاس کی وجہ سے خودکشی کرلی, کسی پر طاقتور نے زیادتی کی‘ کیا کبھی کسی کے پاس جا کر اس کو انصاف دلایا کسی کی داد رسی کی, کسی کے دکھوں کا مداوا کیا؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام سے مدینہ واپس تشریف لائے تو لوگوں سے بچ کر نکل گئے کہ عامۃ المسلمین کے حالات اور کوائف معلوم کریں۔ اسی اثناء میں آپ کا گذر ایک خیمہ کے پاس ہوا وہاں ایک بوڑھی عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
عمر کا کچھ معلوم ہے؟
وہ بولی: ہاں! شام سے صحیح سلامت واپس آگیا ہے۔
حضرت نے دریافت کیا:
تمہاری عمر کے بارے کیا رائے ہے؟
وہ بولی: اس سے خدا پوچھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
کیوں! کیا کیا اس نے؟
کہنے لگی: جب سے وہ خلیفہ بنا ہے اس نے مجھے کچھ نہیں دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ: لیکن عمر کو تمہاری حالت کیا معلوم؟ تم یہاں وہ وہاں۔
بڑھیا بولی: خدا کی قسم میں نہیں خیال کرتی کہ کوئی شخص اپنے وقت کا والی ہو اور وہ یہ نہ جانتا ہو کہ اس کی حدود مملکت کے مشرق میں کیا ہے؟ مغرب میں کیا ہے؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے۔
پھر فرمایا:
آہ اے بدقسمت عمر تجھ سے زیادہ ہر شخص جانتا ہے حتی کہ یہ بڑھیا بھی۔
پھر آپ نے کہا کہ:
تم کتنے میں عمر کو معاف کردوگی؟ میں اسے دوزخ کی آگ سے بچانا چاہتا ہوں۔
بڑھیا نے جواب دیا:
خدا تجھ پر رحم کرے۔ اے شخص مجھ سے مذاق نہ کر۔
حضرت عمر: میں مذاق نہیں کرتا۔
حضرت نے اپنا اصرار جاری رکھا یہاں تک کہ 25 دینار میں آپ نے اس سے معافی حاصل کرلی۔
اسی اثناء میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے۔ دونوں بزرگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے کہا:
السلام علیکم یا امیرالمومنین!
بڑھیا نے سر پیٹ لیا اور بولی:
ہائے میں نے یہ کیا کیا؟ امیرالمومنین کو ان کے سامنے برا بھلا کہہ بیٹھی؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:
کوئی مضائقہ نہیں۔ خدا تجھ پر رحم کرے۔
پھر آپ نے چمڑا لکھنے کےلیے طلب کیا مگر نہ ملا۔ پھر آپ نے اپنی چادر کا ایک ٹکڑا پھاڑا اور اس پر لکھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم عمر نے فلاں عورت کو 25 دینار دے کر جس دن سے خلافت سنبھالی ہے آج تک کی خطا کی معافی حاصل کرلی ہے۔ اب یہ بڑھیا میدان حشر میں خدائے عزوجل کے سامنے عمر پر کوئی دعوی نہیں کرے گی۔ وہ اب اس سے بری ہے۔
اس تحریر پر حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بطور گواہ دستخط کیے۔
اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنی نازک اور گراں بار ذمہ داریوں کا کتنا زیادہ احساس تھا۔ اور وہ حشر کی جواب دہی سے کتنے خائف رہتے تھے یہی ایک مرد مومن کی علامت ہے۔

جناب عمران نیازی صاحب! ملک میں کورونا کی وبا کی وجہ سے لاک ڈاون جاری ہے۔ غریب اور دیہاڑی دار طبقہ پس کر رہ گیا ہے۔ حتی کہ متوسط طبقہ بھی پریشان ہوگیا ہے۔ نجانے کتنے گھروں کا چولہا بجھ گیا ہے۔ حکومتی امداد ایک تو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے اور غریبون سے پہلے ہی بالا بالا ہی اس کی بندر بانٹ ہوگئی اور اگر کہیں (سندھ) کچھ ملا تو انتہائی کم اور ایسی اطلاعات بھی ہیں ملنے والا سامان سالہا سال پرانا یعنی ناقابل استعمال۔
اگر قیامت کے روز رب نے پوچھ لیا تو کیا جواب دوگے؟

صاحب حیثیت آگے بڑھیں۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ سخت قحط پڑا یہاں تک کہ لوگ بھوک سے مرنے لگے۔ اسی زمانہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا کاروان تجارت شام سے آیا جس میں چربی‘ زیت‘ منقی وغیرہ تھے۔ نیز ایک ہزار اونٹ تھے۔ یہ سب چیزیں آپ کے گھر میں پہنچیں۔ بہت سے تاجر آئے اور کہا:
یہ سب چیزیں ہمارے ہاتھ فروخت کردیں۔
آپ نے پوچھا: کتنا نفع دوگے؟
وہ بولے:  ہر درہم پر پانچ درہم۔
آپ نے فرمایا:  میں تو ہر درہم پر دس سے بھی زیادہ لینا چاہتا ہوں۔
لوگوں نے کہا: یہ تو بہت زیادہ ہے۔
آپ نے فرمایا: اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ ہر درہم کے بدلے دس درہم۔ تم زیادہ دو تو بات کرو۔
وہ بولے: ہم نہیں دے سکتے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: گواہ رہنا! یہ مال میں صدقہ کرتا ہوں۔
پھر فقرائے اہل مدینہ میں تقسیم کردیا۔
اس وقت جب پوری دنیا ایک وبا کی لپیٹ میں ہے۔ اہل ثروت, اہل خیر اور اصحاب مال کو آگے بڑھنا چاہیے۔ تا کہ ملک کو کوئی باشندہ خالی پیٹ نہ رہے۔ ہر کوئی شخص اپنے شہر اور محلہ میں غرباء‘ مساکین اور محتاجوں کا خیال رکھے اور ان کی ضروریات پوری کرے۔ اللہ ہم سب سے راضی ہوجائے گا۔ ان شاءاللہ




  نوٹ:
            مقالہ نگار کے ساتھ’’انتخاب اردو‘‘ ٹیم کا اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ہے۔
            سائٹ پر کوئی اشتہار دیا گیا تو نیک نیتی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، مشتہر کے ساتھ لین دین وغیرہ معاملات کے ذمہ دار نہیں۔
            آپ بھی اپنی تحریروں کو ’’انتخاب اردو‘‘ کی زینت بنانا چاہیں تو ای میل کریں:
             intikhaburdu@gmail.com



No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot