تازہ ترین

Post Top Ad

Sunday, March 1, 2020

سپر پاور کا سرنڈر، امارات اسلامیہ کے جھنڈے، طالبان کے نعرے


تحریر: جناب پروفیسر محمد عاصم حفیظ
امریکہ کے سرنڈر معاہدے پر دستخط کرتے ہی اللہ اکبر کے نعروں کی گونج۔ موجود درجنوں داڑھی پگڑی والے میڈیا کی چکاچوند سے دور رب کائنات کی بارگاہ میں سربسجود۔ امارات اسلامیہ کے جھنڈے لہراتے ہوئے مارچ کرنے لگے ۔ سامنے وہی دشمن تھے جو دو دہائیاں قبل پورے لاؤ لشکر سمیت آئے تھے ۔ پتھر کے زمانے میں پہنچا دینے کا نعرہ لگایا تھا ۔ اب بھی وہی سامنے تھے لیکن بےبس و مجبور ۔ یہ کوئی افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں کا محاذ نہیں تھا بلکہ قطر کا فائیو سٹار ہوٹل جہاں ایک سپر پاور کا غرور دفن ہو رہا تھا ۔ کون جیتا کون ہارا ؟ فیصلہ کرنا انتہائی آسان ہے ۔ خود پتہ کر لیں کہ پہاڑوں کی غاروں میں محاذوں پر ڈٹے طالبان تک مذاکرات کا پیغام کس نے پہنچایا۔ کون ان کے ہوائی سفر اور دنیا بھر کے دوروں کا انتظام کرتا رہا۔ معاہدہ ہونے کے بعد خوشی اور جذبات سے نعرے کس نے لگائے؟ عالمی میڈیا کا مرکز کون تھے؟ کوئی امریکی وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس سننے نہ گیا، البتہ ان درویشوں کے پیچھے پوری دنیا کا میڈیا تھا جو ان کا ایک ایک لفظ سننا چاہتا تھا۔ ہر کوئی ان سے بات کرناچاہتا تھا۔ ہر کیمرہ ان پر فوکس تھا اور انہیں ہی دیکھا رہا تھا۔
جی یہ اس صدی کی سب سے بڑی خبر ہے کہ ایک سپر پاور جو اپنے پچاس سے زائد اتحادی ممالک کی افواج لیکر حملہ آور ہوا۔ اسے ان طالبان نے شکست دی جن کی مدد تو دور کی بات کوئی ان کے ساتھ تعلق کا بھی اعتراف نہیں کرتا۔ جنہیں امریکہ کے کہنے پر سب نے چھوڑ دیا بلکہ بعض تو امریکی حمایتی بن گئے۔ لیکن وہ طالبان تنہا لڑے۔ رب کے آسرے پر لڑے ۔ خاموشی سے امریکہ کو زخم لگاتے رہے ۔
انیس سال کا صبر۔ قربانیاں اور میدان جنگ کی سختیاں لیکن ان کے حوصلے نہ ٹوٹے اور وہ سپر پاور کے دعویدار کو روندتے رہے۔ امریکہ ہزاروں ارب ڈالر ڈبو کر بھی انہیں نہ جھکا سکا ۔ حالت یہ ہو گئی کہ خود امریکی اپنی اشیائے خوردونوش پہنچانے کے لئے طالبان علاقوں سے گزرنے کا تاوان دیتے اور انہی ڈالرز سے اسلحہ و ساز وسامان خرید کر امریکہ پر حملے کئے جاتے ۔
طالبان نے امریکی سے اسلحہ ا ور ساز وسامان چھین کر امریکہ سے لڑائی کی اور امریکہ کو شکست فاش دی ۔ امریکہ و اتحادی تو چند سال کے لئے آئے تھے کہ طالبان کو ماریں گے ۔ نئی حکومت بنوائیں گے ۔ کلچر معاشرے اور نظریات کو بدل دیں گے ایک مغرب زدہ اور ماڈرن افغانستان بنا کر واپس آ جائیں گے ۔ لیکن طالبان کی استقامت ۔ عزم اور صبر و استقلال نے تاریخ کا دھارا بدل ڈالا ۔ امریکہ رسوا ہو کے امن کی بھیک مانگتا رہا اور کئی سالوں کے اس مذاکراتی عمل کے بعد انخلاء کے معاہدے پر مجبور ہوا ۔ خود کئی طالبان لیڈر رہا کرکے افغانستان پہنچائے ۔ کئی ممالک سے رہائی دلوائی ۔ آج جس ملا عبدالغنی برادر نے اس معاہدے پر دستخط کئے وہ بھی رہا کراکے وہاں پہنچائے گئے تھے ۔ ان کے ساتھ بیٹھے ملا عبدالاسلام ضعیف گوانتاناموبے جیل سے لائے گئے ۔ ہر ایک کی اپنی اپنی کہانی ہے ۔ اس محفل میں طالبان فاتح کی طرح بیٹھے ۔ تقریب سے پہلے کسی نے پوچھا معاہدے پر دستخط کون کرے گا تو جواب ملا " امارات اسلامیہ " ۔ یعنی یہ معاہدہ امریکہ اور انیس سال قبل کی طالبان حکومت کے درمیان ہوا ہے ۔ اسی لئے تو انہوں نے پرجوش نعرے لگائے اور امارات اسلامیہ کے پرچم لہرا کر مارچ کیا ۔ طالبان نے سب کا شکریہ ادا کیا ۔ پاکستان کا بھی کہ جس کے اعلی ترین عسکری حلقوں نے ان مذاکرات کے حوالے سے مثبت کردار ادا کیا ۔یہ لبرل و سیکولر نظریات کی بھی شکست ہے کہ جو امریکہ و مغرب کی ظاہری طاقت ، اسلحہ اور شان و شوکت سے متاثر ہیں ۔ ان کے لئے خبر ہے کہ افغانستان کے ان مجاہدین نے امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے جن کے پاوں میں اب بھی چپلیں ہیں اور دنیا میں کوئی انہیں اسلحہ نہیں دیتا ۔ کوئی واضح حمایتی نہیں ہے ۔ٹیکنالوجی اور جدت کیساتھ ان کا دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ ان کی ایمانی طاقت اور صبر و ہمت و استقلال نے آج ایک نام نہاد سپر پاور کو شکست دی ہے ۔
یہ صرف امریکہ کی شکست نہیں بلکہ جنوبی ایشیاء میں علاقائی تھانیداری کے خواب دیکھتے بھارت کی بھی ہار ہے کیونکہ بھارت نے افغانستان میں اپنا نیٹ ورک قائم کرنے ، اپنے حمایتی گروہ بنانے اور افغان کٹھ پتلی حکومتوں کے لئے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جو کہ یکدم زمین بوس ہو چکی ہے ۔ خطے کی صورتحال یکدم بدل جائے گی ۔ افغانستان میں طالبان کے اثر و رسوخ کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔ انہوں نے سپر پاور کو ہرایا ہے تو ان کے اعتماد کا لیول کیا ہو گا۔ پاکستان کو اس موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ طالبان کے بڑے پاکستان کے ہمیشہ احسان مند رہے ۔ نائن الیون کے بعد چند ناخوشگوار واقعات ہوئے لیکن انہیں بھلا دینے اور طالبان کیساتھ ایک نئے آغاز کی ضرورت ہے ۔ اس حوالے سے حکومت کو چاہیے کہ طالبان پاکستان میں جن دینی حلقوں کے قریب ہیں انہیں بھی اعتماد میں لیا جائے تاکہ طالبان کے ساتھ اعتماد سازی کا عمل تیز ہو سکے ۔ افغانستان میں امن پاکستان کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے ۔ افغان مہاجرین کی واپسی اور قبائلی علاقوں میں مکمل امن و سکون کے لئے افغانستان میں جنگ بندی اور پرامن ماحول ضروری ہے ۔ اس سے پاکستانی معیشت پر بے پناہ مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔



  نوٹ:
            مقالہ نگار کے ساتھ’’انتخاب اردو‘‘ ٹیم کا اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ہے۔
            سائٹ پر کوئی اشتہار دیا گیا تو نیک نیتی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، مشتہر کے ساتھ لین دین وغیرہ معاملات کے ذمہ دار نہیں۔
            آپ بھی اپنی تحریروں کو ’’انتخاب اردو‘‘ کی زینت بنانا چاہیں تو ای میل کریں:
             intikhaburdu@gmail.com



No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot