تازہ ترین

Post Top Ad

Saturday, January 4, 2020

سیاسی جماعتیں اور غریب پر ٹیکسز کی بھرمار


تحریر: جناب عبدالرحمن ثاقب (سکھر)
وطن عزیز پاکستان کی ساری سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفادات کو عزیز سمجھتی اور ان مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ عوام کو صرف نعروں کے پیچھے لگاتی اور بیوقوف بناتی ہیں۔ بظاہر ایک دوسرے کے مخالف نظر آنے والے یہ سیاستدان جب وقت آتا ان کے مشترکہ مفادات کے تحفظ کا تو ایک ساتھ مل جاتی ہیں۔ لیکن عوام کی درد، تکلیف اور دکھ سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔ صرف عوام کو دکھانے کےلیے ایک دوسرے کے خلاف تقریریں اور باتیں کرتے ہیں۔ کبھی بھی کسی سیاسی جماعت نے مہنگائی کے خلاف اور عوام کو تعلیمی و طبی سہولتیں دینے کےلیے تحریک نہیں چلائی بلکہ جب اپنے مفادات کو زک پہنچتی ہے تو پھر ایک نیا نعرہ ایجاد کرکے احتجاج، جلسے اور جلوس کرنے لگ جاتے ہیں جس کا ایندھن بھی غریب عوام ہی بنتے ہیں۔
سب سیاسی جماعتوں کا یک نکاتی ایجنڈا ہے کہ کسی بھی طرح سے عوام کے نام پر اقتدار حاصل کرو پھر حصول اقتدار کے بعد اسی عوام پر ٹیکسز کی بھر مار کرکے ان کے تن کے کپڑے بھی اتار لو۔ اگر ممکن ہوسکے تو ان کی روحیں نکال کر ان کو مار دو۔ ہم ایک ایک چیز پر ٹیکس دیتے ہیں لیکن ایک شہری ہونے کے ناطے ہمیں کیا سہولت ملتی ہے۔ نہ طبی سہولت ہے اور نہ ہی غریب کے بچے کےلیے تعلیمی سہولت میسر ہے۔ ان سیاستدانوں کے خرچے ہمارے ٹیکسز سے پورے کیے جاتے ہیں ان کی اولادوں کی بیرون ملک تعلیم بھی عوام کا خون نچوڑ کر پوری ہوتی ہے۔ جبکہ غریب کو سرکاری ہسپتال سے بھی اچھی دوا یا اچھا ڈاکٹر نہیں ملتا۔ بچوں کو پڑھانے کےلیے اچھے تعلیمی ادارے نہیں جو مفت میں تعلیم دیں بلکہ ہر سطح کے بچوں کی تعلیم کی فیسیں دینا پڑتی ہیں۔ اب غریب بندہ بچوں کو کھلائے پلائے، یا ان کے تعلیمی اخراجات برداشت کرے یا حکومت کا گھر مختلف ٹیکسز کی مد میں بھرے۔
غریب کی آمدن کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ گذشتہ دنوں شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور سے ایک بچے کا سرٹیفیکیٹ کی فیس معلوم کی تو پتہ چلا کہ ایک سرٹیفیکیٹ کی فیس تین ہزار اور مارکس شیٹ کی فیس سات سو روپئے۔ جب کہ اگلے مرحلہ مارکس شیٹ کی فوٹو کاپی لگ سکتی ہے لیکن طلبا اور ان کے والدین پر بوجھ ڈالنے کےلیے اوریجنل مارکس شیٹ جمع کی جاتی ہے تا کہ وہ ڈپلی کیٹ نکلوائیں اور ان کی آمدن بڑھتی رہے۔ اسی طرح سے شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور سے منسلک ایک کالج میں بچے کے ایم اے میں داخلہ کےلیے گیا تو پتہ چلا کہ داخلہ فیس ہی 18300 روپئے ہے۔ اور یہ ایک سال کی فیس ہے اور امتحانی فیس اس کے علاوہ ہے اور جب سرٹیفیکیٹ یعنی سند لی جائے گی تو فیس الگ سے دی جائے گی۔ اب مجھے کوئی بتائے کہ میں تو مختلف ٹیکس ادا کرتا ہوں اور ہر چیز پر ٹیکس دیتا ہوں حتی کہ بچے کی ٹافی سے لے کر کفن تک ٹیکس دیتا ہوں اس ٹیکس کے بدلے مجھے کیا ملا ہے؟
جب مجھے یا میری اولاد کو اچھی تعلیمی اور طبی سہولتیں میسر نہیں تو پھر مجھ سے اس قدر بھاری ٹیکس کیوں وصول کیے جاتے ہیں۔ آئے روز بجلی، گیس اور پٹرول پر ٹیکس لگا کر ان کی قیمتیں کیوں بڑھائی جاتی ہیں؟
ہر سال بجٹ کا ڈھونگ رچا کر نت نئے ٹیکس لگائے اور پرانے ٹیکسز میں اضافہ کیوں کیا جاتا ہے؟
اب غریب عوام اور متوسط طبقہ کو سوچنا ہوگا کہ ہم جنہیں اپنا نمائندہ سمجھ کر اور منتخب کرکے اسمبلی میں بھیجتے ہیں وہ ہمارے مفاد میں کیا کرتا ہے اور اس نمائندے کی پارٹی نے عوام کی فلاح و بہود کےلیے کیا کیا ہے؟
ہم اس اسمبلی کی صورت حال کا ہی جائزہ لے لیں کہ گذشتہ سولہ سترہ مہینوں میں ہمارے منتخب نمائندوں نے غربت کے خاتمے کےلیے کیا کیا؟ یا پھر ان کی غربت بڑھانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے؟
موجودہ حکومت نے تعلیمی اور طبی سہولتوں کا خاتمہ کیا کس سیاسی جماعت نے حکومت کے ان عوام دشمن اقدامات کے خلاف عوام کو سڑکوں پر نکال  کر حکومت کو ان اقدامات کو واپس لینے پر مجبور کیا؟
یا پھر وہ بھی خاموش رہ کر ان کے خاموش حمایتی بنے رہے؟
ضرور پڑھیں:  جان اللہ کو دینی ہے
جب ان سیاسی جماعتوں کے اراکین نے اپنے مفادات یعنی الاونسز اور تنخواہوں میں اضافہ کروانا ہوتا ہے یا اپنے آقاوں کے حق میں قانون سازی کرنی ہوتی ہے تو سب سیاسی جماعتیں یک زبان ہوجاتی ہیں اور ملک و قوم کے مفاد کا نام لے کر کرگذرتی ہیں لیکن جب غریب عوام کے حقوق کی بات کا وقت آتا ہے تو سب کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں اور پھر یہ سیاسی بزرجمہرے اپنے اپنے اختلاف لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور عوام ذلیل و رسوا ہوتی رہتی ہے۔
غریب عوام کو سوچنا ہوگا کہ کب تک خاموش رہ کر یہ اس طرح سے ظلم و ستم برداشت کرتے رہیں گے؟ بالآخر اپنے اور اپنے بچوں کے حقوق کےلیے انہیں باہر نکلنا ہوگا۔



  نوٹ:
            مقالہ نگار کے ساتھ’’انتخاب اردو‘‘ ٹیم کا اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ہے۔
            سائٹ پر کوئی اشتہار دیا گیا تو نیک نیتی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، مشتہر کے ساتھ لین دین وغیرہ معاملات کے ذمہ دار نہیں۔
            آپ بھی اپنی تحریروں کو ’’انتخاب اردو‘‘ کی زینت بنانا چاہیں تو ای میل کریں:
             intikhaburdu@gmail.com



No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot